Monday 28 September 2020

دلوں سے خوف نکالا گیا تھا بچپن میں

 دلوں سے خوف نکالا گیا تھا بچپن میں

ہمیں ہوا میں اچھالا گیا تھا بچپن میں

میں اس لیے بھی سمجھتا ہوں ہجرتوں کا دکھ

مجھے بھی گھر سے نکالا گیا تھا بچپن میں

وہ اب کسی سے سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے

جسے زیادہ سنبھالا گیا تھا بچپن میں

یہ صبر میری طبیعت میں ایسے آیا ہے

ہر ایک بات پہ ٹالا گیا تھا بچپن میں

اسی سبب سے مِری سانس اب اٹکتی ہے

وہ ایک طوق جو ڈالا گیا تھا بچپن میں

تمہارے بعد مجھے تتلیوں سے خوف آیا

اگرچہ شوق یہ پالا گیا تھا بچپن میں

تمام عمر مِری سوچ اس میں الجھی رہی

میں جس فریب میں ڈالا گیا تھا بچپن میں

اسی سے آج مِرا اختلاف رہتا ہے

میں جس کی طرز پہ ڈھالا گیا تھا بچپن میں

بتاؤں کیا جو تعلق ہے پتھروں سے مرا

انہیں بھی گھر میں ابالا گیا تھا بچپن میں


ساجد رحیم

1 comment:

  1. معذرت مجھے پڑھنے میں مسئلہ ہوا شعر درست ہے دراصل نظر کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مسئلہ ہو گیا

    ReplyDelete