دلوں سے خوف نکالا گیا تھا بچپن میں
ہمیں ہوا میں اچھالا گیا تھا بچپن میں
میں اس لیے بھی سمجھتا ہوں ہجرتوں کا دکھ
مجھے بھی گھر سے نکالا گیا تھا بچپن میں
وہ اب کسی سے سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے
جسے زیادہ سنبھالا گیا تھا بچپن میں
یہ صبر میری طبیعت میں ایسے آیا ہے
ہر ایک بات پہ ٹالا گیا تھا بچپن میں
اسی سبب سے مِری سانس اب اٹکتی ہے
وہ ایک طوق جو ڈالا گیا تھا بچپن میں
تمہارے بعد مجھے تتلیوں سے خوف آیا
اگرچہ شوق یہ پالا گیا تھا بچپن میں
تمام عمر مِری سوچ اس میں الجھی رہی
میں جس فریب میں ڈالا گیا تھا بچپن میں
اسی سے آج مِرا اختلاف رہتا ہے
میں جس کی طرز پہ ڈھالا گیا تھا بچپن میں
بتاؤں کیا جو تعلق ہے پتھروں سے مرا
انہیں بھی گھر میں ابالا گیا تھا بچپن میں
ساجد رحیم
معذرت مجھے پڑھنے میں مسئلہ ہوا شعر درست ہے دراصل نظر کے مسائل ہیں جن کی وجہ سے مسئلہ ہو گیا
ReplyDelete