Monday 28 September 2020

بھیڑ ایسی ہے کہ مجھ کو راستہ ملتا نہیں

 بھیڑ ایسی ہے کہ مجھ کو راستہ ملتا نہیں

گُل کوئی کھِلتا نہیں، شعلہ کوئی اٹھتا نہیں

اے مِرے شوقِ طلب تیرے جنوں کی خیر ہو

تُو نے کیا حدِ نِگہ کا فاصلہ دیکھا نہیں

اے غرورِ حسن میں تیرے بدن کا عکس ہوں

محوِ حیرت ہوں کہ تُو نے مجھ کو پہچانا نہیں

ایک پل میں یہ ردائے آب میں چھپ جائیں گی

رنگ کی لہروں کے پیچھے بھاگنا اچھا نہیں

دل جہاں لے جائے دل کے ساتھ جانا چاہیے

اس سے بڑھ کر اور کوئی رہنما ہوتا نہیں

جس کے جلووں نے ازل سے مضطرب رکھا مجھے 

وہ تو میرے سامنے بھی آج تک آیا نہیں


جمیل یوسف

No comments:

Post a Comment