بھیڑ ایسی ہے کہ مجھ کو راستہ ملتا نہیں
گُل کوئی کھِلتا نہیں، شعلہ کوئی اٹھتا نہیں
اے مِرے شوقِ طلب تیرے جنوں کی خیر ہو
تُو نے کیا حدِ نِگہ کا فاصلہ دیکھا نہیں
اے غرورِ حسن میں تیرے بدن کا عکس ہوں
محوِ حیرت ہوں کہ تُو نے مجھ کو پہچانا نہیں
ایک پل میں یہ ردائے آب میں چھپ جائیں گی
رنگ کی لہروں کے پیچھے بھاگنا اچھا نہیں
دل جہاں لے جائے دل کے ساتھ جانا چاہیے
اس سے بڑھ کر اور کوئی رہنما ہوتا نہیں
جس کے جلووں نے ازل سے مضطرب رکھا مجھے
وہ تو میرے سامنے بھی آج تک آیا نہیں
جمیل یوسف
No comments:
Post a Comment