Saturday 26 September 2020

راز میں رکھ تری رسوائی کا قصہ میں ہوں

 راز میں رکھ تِری رسوائی کا قصہ میں ہوں

مجھ کو پہچان تِرا دوسرا چہرہ میں ہوں

دفن ہیں تیرے کئی راز مِرے سینے میں

جو ترے گھر سے گزرتا ہے وہ رستہ میں ہوں

مدتوں بعد بھی جاری ہے عذابوں کا سفر

قطرہ قطرہ تِری آنکھوں سے ٹپکتا میں ہوں

آ ذرا بیٹھ مِرے پاس بھی کچھ پل کے لیے

میرے ہمدم تِری دیوار کا سایہ میں ہوں

اب بھی زندہ ہوں تِری روح میں غم کی صورت

کون کہتا ہے کہ ٹوٹا ہوا رشتہ میں ہوں

مجھ کو پوجے گی تہِ خاک جو دنیا ہے شکیل

کل جو ٹوٹا تھا فلک سے وہ ستارہ میں ہوں


شکیل اعظمی

No comments:

Post a Comment