Sunday 27 September 2020

تیرے اتارے ہوئے دن

 تیرے اتارے ہوئے دن

ٹنگے ہیں لان میں اب تک

نہ وہ پرانے ہوئے ہیں

نہ ان کا رنگ اترا کہیں سے

کہیں سے کوئی بھی سیون ابھی نہیں اُدھڑی

الائچی کے بہت پاس رکھے پتھر پر

ذرا سی جلدی سرک آیا کرتی ہے چھاؤں

ذرا سا اور گھنا ہو گیا ہے وہ پودا

میں تھوڑا تھوڑا وہ گملا ہٹاتا رہتا ہوں

فقیرا اب بھی وہیں میری کافی دیتا ہے

گلہریوں کو بلا کر کھلاتا ہوں بسکٹ

گلہریاں مجھے شک کو نظر سے دیکھتی ہیں

وہ تیرے ہاتھوں کا مس جانتی ہوں گی

کبھی کبھی جب اترتی ہیں چیل شام کی چھت سے

تھکی تھکی سی ذرا دیر لان میں رک کر

سفید اور گلابی مسمبی کے پودوں میں ہی

گھلنے لگتی ہیں

کہ جیسے برف کا ٹکڑا پگھلتا جائے وہسکی میں

میں سکارف گلے سے اتار دیتا ہوں

تیرے اتارے ہوئے دن پہن کر اب بھی میں

تیری مہک میں کئی روز کاٹ دیتا ہوں

تیرے اتارے ہوئے دن ٹنگے ہیں لان میں اب تک

نہ وہ پرانے ہوئے ہیں نہ ان کا رنگ اترا

کہیں سے کوئی بھی سیون ابھی نہیں اُدھڑی


گلزار

No comments:

Post a Comment