Sunday 27 September 2020

کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے

 کچھ اس طرح سے ملیں ہم کہ بات رہ جائے

بچھڑ بھی جائیں تو ہاتھوں میں ہات رہ جائے

اب اس کے بعد کا موسم ہے سردیوں والا

تِرے بدن کا کوئی لمس سات رہ جائے

میں سو رہا ہوں تِرے خواب دیکھنے کے لیے

یہ آرزو ہے کہ آنکھوں میں رات رہ جائے

میں ڈوب جاؤں سمندر کی تیز لہروں میں

کنارے رکھی ہوئی کائنات رہ جائے

شکیل مجھ کو سمیٹے کوئی زمانے تک

بکھر کے چاروں طرف میری ذات رہ جائے


شکیل اعظمی

No comments:

Post a Comment