تیری زلفیں، تِرے رخسار، ترے لب میرے
جتنے پہلو ہیں تِرے حسن کے وہ سب میرے
اس سے اب ترکِ محبت کا گِلہ کیا معنی؟
مجھ کو تسلیم کہ اطوار تھے بے ڈھب میرے
پھر وہی چاند سرِ شہر چڑھے تو اے کاش
اس سے روشن ہوں در و بام بس اک شب میرے
جن کا ہر لمحہ گزرتا تھا مِری قربت میں
دور و نزدیک نظر آتے نہیں اب میرے
مجھ سے کترا کے گزر جاتے ہیں دیرینہ رفیق
راستے دیکھتے ہیں سخت کٹھن جب میرے
اب اگر کھل ہی گئے ہو تو چلو یوں ہی سہی
ورنہ تم دوست تو پہلے بھی رہے کب میرے
کیوں مجھے شدتِ احساس عطا کی اتنی
تجھ سے انصاف کا طالب ہوں میں اے رب میرے
خلق کی سنگ زنی کا ہے یہ کوثر احسان
تہ میں جس کے گئے سب حسن و قبح دب میرے
کوثر نیازی
No comments:
Post a Comment