کمال خود ہی چھلکنے لگا عبارت سے
جو میں نے لکھا ہے, لکھا ہے سب مہارت سے
نظارہ ایک تھا، ہم نے جدا جدا دیکھا
میں دیکھتی تھی بصیرت سے، وہ بصارت سے
اسی لیے ہے روش آنکھ کی ہوس سے تر
یہ دید بھرتی کہاں ہے کبھی نظارت سے
مِرا یقین جو آدھا ہے اس صفائی پر
یہ پورا ہو گا مِری روح کی طہارت سے
اسے معاملہ بندی بھی خوب آتی ہے
سو اس نے مول محبت بھی کی تجارت سے
عدم کو غیر عدم سے الگ ہی رکھا ہے
ہنر یہ سیکھا ہے میں نے بہت مہارت سے
مجھے یہ لوگ سمجھنے لگے ہیں نامہ بر
مجھے لگاؤ ہے یوں بھی بہت سفارت سے
تمہیں یہ کیسے پتا ہے کہ ہے دوام مجھے
مجھے تو علم ہوا تھا کسی بشارت سے
نیل احمد
No comments:
Post a Comment