آنکھ کے دشت میں پھیلی ہوئی وحشت کا جواز
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں تجھ سے محبت کا جواز
میں نے کب شوق سے چھوڑا ہے تِرا شہرِ جمال
خود بخود بنتا گیا تُو مِری ہجرت کا جواز
ضبط کرنا مِرا شیوہ تھا مگر آخرِ کار
آنکھ نے ڈھونڈ لیا دل سے بغاوت کا جواز
لب گریزاں تھے مگر پوچھ لیا سورج سے
میرے جلتے ہوئے سائے نے تمازت کا جواز
اے ہوا! تیز نہ چلتی تو تِرا کیا جاتا
چار تنکے تھے بنایا تھا جنہیں چھت کا جواز
میں محبت سے بھرا شخص تھا خالی ہوں عدیل
اب تو بنتا ہے مِرے ساتھ رعایت کا جواز
فرخ عدیل
No comments:
Post a Comment