Monday 28 September 2020

آنکھ کے دشت میں پھیلی ہوئی وحشت کا جواز

 آنکھ کے دشت میں پھیلی ہوئی وحشت کا جواز

ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں تجھ سے محبت کا جواز

میں نے کب شوق سے چھوڑا ہے تِرا شہرِ جمال

خود بخود بنتا گیا تُو مِری ہجرت کا جواز

ضبط کرنا مِرا شیوہ تھا مگر آخرِ کار

آنکھ نے ڈھونڈ لیا دل سے بغاوت کا جواز

لب گریزاں تھے مگر پوچھ لیا سورج سے

میرے جلتے ہوئے سائے نے تمازت کا جواز

اے ہوا! تیز نہ چلتی تو تِرا کیا جاتا

چار تنکے تھے بنایا تھا جنہیں چھت کا جواز

میں محبت سے بھرا شخص تھا خالی ہوں عدیل

اب تو بنتا ہے مِرے ساتھ رعایت کا جواز


فرخ عدیل

No comments:

Post a Comment