جانے وہ کون تھا اور کس کو صدا دیتا تھا
اس سے بچھڑا ہے کوئی اتنا پتہ دیتا تھا
کوئی کچھ پوچھے تو کہتا کہ ہوا سے بچنا
خود بھی ڈرتا تھا بہت سب کو ڈرا دیتا تھا
اس کی آواز کہ بے داغ سا آئینہ تھی
تلخ جملہ بھی وہ کہتا تو مزہ دیتا تھا
دن بھر ایک ایک سے وہ لڑتا جھگڑتا بھی بہت
رات کے پچھلے پہر سب کو دعا دیتا تھا
وہ کسی کا بھی کوئی نشہ نہ بجھنے دیتا
دیکھ لیتا کہیں امکاں تو ہوا دیتا تھا
اک ہنر تھا کہ جسے پا کے وہ پھر کھو نہ سکا
ایک اک بات کا احساس نیا دیتا تھا
جانے بستی کا وہ اک موڑ تھا کیا اس کیلئے
شام ڈھلتے ہی وہاں شمع جلا دیتا تھا
ایک بھی شخص بہت تھا کہ خبر رکھتا تھا
ایک تارا بھی بہت تھا کہ صدا دیتا تھا
رخ ہوا کا کوئی جب پوچھتا اس سے بانی
مٹھی بھر خاک خلا میں وہ اڑا دیتا تھا
منچندا بانی
No comments:
Post a Comment