سہرا
سر کو نوشہ کے مِرے شاہ نے باندھا سہرا
سورۂ نور کا دِکھلاتا ہے جلوہ سہرا
رِیش یعقوبؑ نے رکھی ہے رُخِ یوسفؑ پر
چشمِ بد دور کہ ہے زُلفِ زُلیخا سہرا
باغِ اُلفت سے حسینوں نے جو کلیاں بینی
اس پری کے لیے پریوں نے بنایا سہرا
پوتے پڑپوتوں کے تم باندھیو سر کو سہرے
جیسا بابا نے تمہارے تمہیں باندھا سہرا
حُب کا تعویذ بنے پُھول ہر اک سہرے کا
وصلِ یار اس کو ہو جس نے تِرا دیکھا سہرا
اوفتادہ بھی ہے یہ اور بڑا شوخ بھی ہے
گُلِ رُخسار کا لے لیتا ہے بوسہ سہرا
پنجۂ مہر سے زہراؑ نے بلائیں لے لیں
جب نسیم! چمنِ شوق نے لکھا سہرا
نسیم میسوری
No comments:
Post a Comment