Wednesday, 30 September 2020

اس نے دیکھی تھی مری تصویر پہچانی نہ تھی

 عکس کا حصہ طبیعت کی پریشانی نہ تھی

اس نے دیکھی تھی مِری تصویر، پہچانی نہ تھی

ڈھونڈ لیتا تھا میں اپنی ہر خرابی کا جواز

جیسا میں بدنام تھا، ویسی پشیمانی نہ تھی

اپنے بستر پر نہیں ہوتے ہوئے ہوتا تھا میں

اتنی ویرانی تھی کمرے میں کہ ویرانی نہ تھی

ساعتِ جلوہ تھی اور حیرت میں گم تھی کائنات

میں نکما، مجھ پہ عائد شرطِ حیرانی نہ تھی

میری مٹی میں تھا شامل سِیم و اطلس سے گریز

میری مجبوری تھی صاحب، میری قربانی نہ تھی

آخرش کاسہ بنایا چوبِ مسند چھیل کر

میں کہ تھا درویش مجھ میں خوئے سلطانی نہ تھی

میں تہی دامانیٔ الفاظ سے جانا گیا

میری شہرت کا سبب میری زباں دانی نہ تھی

پردہ کرتی تھی زلیخا جس سے وہ یوسف تھا میں

میری عصمت کی گواہی چاک دامانی نہ تھی

مضطرب میں بھی تھا اس دم، معترض وہ بھی نہ تھا

اتفاقی وصل کی مہلت تھی، امکانی نہ تھی

آخرِ شب دیر تک ہم گفتگو کرتے رہے

آخرِ شب کیفیت بھی اتنی ہیجانی نہ تھی

کام ناخن سے جو لینا تھا وہ اک شب لے لیا

زخم بھر جاتا، تپائی پر نمک دانی نہ تھی

ایک مسجد تھی کہ جس میں صرف محرابیں نہ تھیں

ایک سجدہ تھا کہ جس میں صرف پیشانی نہ تھی

ایک حلقہ تھا کہ شرمندہ گراں باری پہ تھا

ایک زنداں تھا کہ جس کو تاب زندانی نہ تھی

اتنا کافی ہے کہ اس نے مجھ کو دھتکارا نہ تھا

التجا سن لی تھی میری، التجا مانی نہ تھی

اس کے کہنے پر بھی میں نے بات دہرائی نہیں

عرض ہی کرنا تھی مجھ کو، بات منوانی نہ تھی

عشق کیا کرتے، کہ دونوں ہی اسیرِ عقل تھے

میں بھی دل والا نہیں تھا، وہ بھی دیوانی نہ تھی

میں ہوں نیشاپور سے اور چاہ تھی جس کی مجھے

کس قدر شیریں سخن تھی، گرچہ ایرانی نہ تھی

فصلِ تنہائی کے صدقے ہر زمیں ہموار ہے

شعر پہلے بھی کہے لیکن یہ آسانی نہ تھی


عارف امام

No comments:

Post a Comment