Tuesday 29 September 2020

دل سے منظور تری ہم نے قیادت نہیں کی

 دل سے منظور تِری ہم نے قیادت نہیں کی

یہ الگ بات ابھی کھل کے بغاوت نہیں کی

ہم سزا وار جو ٹھہرے تو سبب ہے اتنا

حکم حاکم پہ کبھی ہم نے اطاعت نہیں کی

دوستی میں بھی فقط ایک چلن رکھا ہے

دل نے انکار کیا ہے تو رفاقت نہیں کی

تُو نے خود چھوڑا محبت کا سفر یاد تو کر

میں نے تو تجھ سے الگ ہو کے مسافت نہیں کی

جھوم اٹھے گا اگر اس کو سناؤں جا کر

یہ غزل میں نے ابھی نذر سماعت نہیں کی

اس کو بھی اپنے رویے پہ کوئی عذر نہ تھا

ہم بھی تھے اپنی انا میں سو رعایت نہیں کی

یہ تو پھر تجھ سے محبت کا تھا قصہ مری جاں

میرے کس فعل پہ دنیا نے ملامت نہیں کی

تُو نے چرچے کیے ہر جا مِری رسوائی کے

میں نے خود سے بھی کبھی تیری شکایت نہیں کی

دوستوں کو بھی رہی وقت کی قلت اختر

حال دل ہم نے سنانے کی بھی عادت نہیں کی


مجید اختر

No comments:

Post a Comment