طویل ہجر ہے اک مختصر وصال کے بعد
میں اور ہو گیا تنہا تِرے خیال کے بعد
تپش اک اور ہے دن کی حرارتوں کے سوا
سفر اک اور ہے سورج تِرے زوال کے بعد
کسی سے رکھتے کہاں دشمنی کا رشتہ ہم
لہو کو سرد بھی ہونا تھا اک ابال کے بعد
جو توڑنا ہے تو دل اس ادا سے توڑ مرا
کوئی ملال نہ ہو مجھ کو اس ملال کے بعد
ذرا بھی سوچ نہ پایا میں اپنے بارے میں
کوئی خیال نہ آیا، تِرے خیال کے بعد
کہاں گئی وہ محبت کہ جس کے سائے میں
لپٹ کے روئے تھے ہم دونوں عرض حال کے بعد
یہ دل کی بات ہے،۔ سوداگری نہیں یارو
کسی نے کی ہے محبت بھی دیکھ بھال کے بعد
شکیل بند ہوا ہم پہ اس کا دروازہ
کبھی سوال سے پہلے، کبھی سوال کے بعد
شکیل اعظمی
No comments:
Post a Comment