راہ ہستی کے ہر اک موڑ سے بچ کر نکلے
اہل دانش سے تو دیوانے ہی بہتر نکلے
وقت کی تیز ہواؤں نے عجب موڑ لیا
پھول سے ہاتھ جو تھے ان میں بھی پتھر نکلے
تیری یادوں کے سہارے جو گزارے ہم نے
وہ ہی لمحات فقط اپنا مقدر نکلے
ہم نے غیروں کے بھی اشکوں کو لیا دامن پر
چاہے خود غم کے سمندر میں نہا کر نکلے
ان کی فریاد کا آہوں کا اثر ہو گا
اپنے ہاتھوں سے جو گھر اپنا جلا کر نکلے
غم زمانے کی جفاؤں کا کریں کیا خالد
جب گریبان ہی کانٹوں سے سجا کر نکلے
امان اللہ خالد
No comments:
Post a Comment