Monday, 28 September 2020

بٹھا کے دل میں گرایا گیا نظر سے مجھے

 بٹھا کے دل میں گرایا گیا نظر سے مجھے

دکھایا طرفہ تماشہ بلا کے گھر سے مجھے

نظر جھکا کے اٹھائی تھی جیسے پہلی بار

پھر ایک بار تو دیکھو اسی نظر سے مجھے

ہمیشہ بچ کے چلا ہوں میں عام راہوں سے

ہٹا سکا نہ کوئی میری رہگزر سے مجھے

حیات جس کی امانت ہے سونپ دوں اس کو

اتارنا ہے یہ قرضہ بھی اپنے سر سے مجھے

سبو نہ جام نہ مینا سے مے پلا بے شک

پلائے جا مِرے ساقی یوں ہی نظر سے مجھے

جو بات ہوتی ہے دل میں وہ کہہ گزرتا ہوں

نہیں ہے کوئی غرض اہل خیر و شر سے مجھے

نہ دیر سے نہ حرم سے نہ مے کدے سے ملا

سکون روح ملا ہے جو تیرے در سے مجھے

کسی کی راہ محبت میں بڑھتا جاتا ہوں

نہ راہزن سے غرض ہے نہ راہبر سے مجھے

ذرا تو سوچ حقارت سے دیکھنے والے

زمانہ دیکھ رہا ہے تِری نظر سے مجھے

زمانہ میری نظر سے تو گر گیا، لیکن

گرا سکا نہ زمانہ تِری نظر سے مجھے

یہ رنگ و نور کا گلزار دہر فانی ہے

یہی پیام ملا عمر مختصر سے مجھے


گلزار دہلوی

No comments:

Post a Comment