تمہارے سامنے میں آہ آہ کیوں نہ کروں
جو دل میں راہ نہ پاؤں تو راہ کیوں نہ کروں
فلک جو مجھ کو ستائے تو آہ کیوں نہ کروں
تباہ ہو کر اسے میں تباہ کیوں نہ کروں
لحاظ و یاس اب ایسا بھی کیا سرِ محفل
کوئی نگاہ کرے میں نگاہ کیوں نہ کروں
وفورِ غم میں یہ اکثر خیال ہوتا ہے
کہ آہ آہ کروں آہ آہ کیوں نہ کروں
وہ میرے سامنے آئے ہیں اور بیٹھے ہیں
نگاہ کیوں نہ اٹھاؤں نگاہ کیوں نہ کروں
بہت دنوں سے تو ہے مرگ و زیست کا جھگڑا
اب اس خیال کو میں رو براہ کیوں نہ کروں
یہ باغبانِ حقیقی کی یادگاریں ہیں
چمن میں وقعتِ برگ و گیاہ کیوں نہ کروں
نظر ملے جو نظر سے تو دل بھی دل سے ملے
تری نگاہ کی جانب نگاہ کیوں نہ کروں
بشر کے واسطے دونوں ہیں لازم و ملزوم
ثواب کیوں نہ کماؤں، گناہ کیوں نہ کروں
وہی تو ہے مری ایذا کا دیکھنے والا
شبِ فراق خدا کو گواہ کیوں نہ کروں
یہ اختیار تو ہے اختیار سے باہر
چبھے جو تیر کلیجے میں آہ کیوں نہ کروں
قصور وار کو شرمِ قصور لازم ہے
کروں گناہ تو عذرِ گناہ کیوں نہ کروں
اسی لیے تو خدا سے ملی ہیں دو آنکھیں
جہاں میں سیرِ سفید و سیاہ کیوں نہ کروں
حریصِ لذتِ آزار میں ہوں ہر ساعت
شکایتِ ستم گاہ گاہ کیوں نہ کروں
لغت میں نوحؔ کے معنی جو ہیں وہ ظاہر ہیں
یہ نام ہو تو یونہی آہ آہ کیوں نہ کروں
نوح ناروی
No comments:
Post a Comment