Wednesday 30 September 2020

بچھڑنا یار سے آسان بھی نہیں ہوتا

 بچھڑنا یار سے آسان بھی نہیں ہوتا

پھر ایسے جرم کا تاوان بھی نہیں ہوتا

مصیبتوں میں اسے کام آتے دیکھا ہے

وہ شخص جس پہ کوئی مان بھی نہیں ہوتا

ہمارا راستہ کیوں روکتے ہیں سب رہزن

ہمارے پاس تو سامان بھی نہیں ہوتا

ہر ایک شے کی یہاں قیمتیں مقرر ہیں

یہاں تو مفت میں نقصان بھی نہیں ہوتا

یہ دکھ نہیں کہ میں ہر ایک سے الجھتا ہوں

یہ فکر ہے کہ پشیمان بھی نہیں ہوتا

یہ کب کہا ہے کہ ہر آدمی فرشتہ ہو

ستم تو یہ ہے کہ انسان بھی نہیں ہوتا

مِرا بھی دل ہے کسی روز سیر کو نکلوں

مگر یہ شہر تو سنسان بھی نہیں ہوتا


ساجد رحیم

No comments:

Post a Comment