بچھڑنا یار سے آسان بھی نہیں ہوتا
پھر ایسے جرم کا تاوان بھی نہیں ہوتا
مصیبتوں میں اسے کام آتے دیکھا ہے
وہ شخص جس پہ کوئی مان بھی نہیں ہوتا
ہمارا راستہ کیوں روکتے ہیں سب رہزن
ہمارے پاس تو سامان بھی نہیں ہوتا
ہر ایک شے کی یہاں قیمتیں مقرر ہیں
یہاں تو مفت میں نقصان بھی نہیں ہوتا
یہ دکھ نہیں کہ میں ہر ایک سے الجھتا ہوں
یہ فکر ہے کہ پشیمان بھی نہیں ہوتا
یہ کب کہا ہے کہ ہر آدمی فرشتہ ہو
ستم تو یہ ہے کہ انسان بھی نہیں ہوتا
مِرا بھی دل ہے کسی روز سیر کو نکلوں
مگر یہ شہر تو سنسان بھی نہیں ہوتا
ساجد رحیم
No comments:
Post a Comment