Sunday 31 March 2024

بے نام حسرتوں کی امیں

 بے نام حسرتوں کی امیں


کچے گھروندوں میں

جوانی کا باورا سا خواب دیکھنے والی لڑکیاں

پکے گھروں میں

آوارہ شعور کے ساتھ مرگِ شادی مناتی

اِک شورِ آہ و بکا میں

مکافاتِ عمل سے گزرتی

خود پرست دنیا میں اپنی ذات کی پوجا

 خود پرستی


خود پرست دنیا میں 

اپنی ذات کی پوجا 

عام بات ہوتی ہے 

رات کے اندھیروں میں 

جس طرح کوئی جگنو 

خود کو راہبر جانے 

زلزلوں کا جو جائزہ لیں گے

 زلزلوں کا جو جائزہ لیں گے

لوگ توبہ کا آسرا لیں گے

ہم بھی طوفاں سے حوصلہ لیں گے

عزم کا اپنے جائزہ لیں گے

مسکراتے رہیں گے محفل میں

اپنے ہر درد کو چھپا لیں گے

راستے سے گئے ہٹائے ہم

 راستے سے گئے ہٹائے ہم

پھر بھی منزل کے پاس آئے ہم

تھے حقیقت نظر نہ آئے ہم

جب ہوئے خواب جگمگائے ہم

گو چلے تھے، پہنچ نہ پائے ہم

ہم وہیں ہیں جہاں سے آئے ہم

سنسار میں باجے ڈھول کہ پیسہ بولتا ہے

 کہ پیسہ بولتا ہے؛ قوالی


سنسار میں باجے ڈھول

یہ دنیا میری طرح ہے گول

کہ پیسہ بولتا ہے


قارون نے مجھ کو پوجا تھا

فرعون بھی میرا شیدا تھا

شدّاد کی جنت مجھ سے بنی

آگہی کا عذاب جھیلا ہے

 آگہی کا عذاب جھیلا ہے

ہم نے جی ہاں جناب جھیلا ہے

نظم لکھتی ہوں دل کی خوشبو سے

ان کا دیکھا جوخواب جھیلا ہے

زندگی کی تلاش میں ہم نے

جو ہے  لکھا نصاب جھیلا ہے

میرے رازداں میری بات سن

میرے رازداں میری بات سُن

یہ جو چار سُو ہیں اُداسیاں

یہ جو تِیرگی کا حِصار ہے

دلِ منتظر کی شکستگی

یہ جو خواہشوں کا غُبار ہے

میرے چارہ گر، میرے بے خبر

جو حق پر ہے ایمان کامل ہمارا

 راہ راست


جو حق پر ہے ایمان کامل ہمارا

بنا لے گا کیا زور باطل ہمارا

جو ہم متحد ہو کے رہتے وطن میں

نہ تھا کوئی مد مقابل ہمارا

غلامی کی خو بو مسلط ہے ہم پر

دماغ اب ہمارا نہ اب دل ہمارا

کچھ آپ خواب گر ہیں تو ارمان بیچئے

 کچھ آپ خواب گر ہیں تو ارمان بیچئے

نیکی کا ہے ارادہ تو احسان بیچئے

فرقے کے نام پر ہمیں کافر بنائیے

ایماں کے نام پر ہمیں یزدان بیچئے

کیجئے زمین ہم پہ ہماری ہی آپ تنگ

پنجاب، سندھ، خیبر و بولان بیچئے

روشنی کے علم روشنی کے نشاں

 روشنی کے علم


روشنی کے علم، روشنی کے نشاں

زندہ قوموں کے زندہ جواں


اپنی پلکوں پہ نیندیں سجاتے نہیں

اپنے ماتھے کی شمعیں بُجھاتے نہیں

توڑ دیتے ہیں زنجیرِ خوابِ گِراں

زندہ قوموں کے زندہ جواں

Saturday 30 March 2024

چاند تجھ سے مری باتیں کوئی کرتا ہو گا

 چاند تجھ سے مِری باتیں کوئی کرتا ہو گا

نام لے لے کے مِرا تجھ سے بہلتا ہو گا

دیکھتا ہو گا فلک پر جو ستاروں کا ملن

دل ہی دل میں مِرے قدموں سے لپٹتا ہو گا

آتش ہجر جو تن من کو جلاتی ہو گی

اک دُھواں سا در و دیوار سے اُٹھتا ہو گا

خوابوں کی تعبیر بتا سکتا ہوں میں

 خوابوں کی تعبیر بتا سکتا ہوں میں

پانی پر تصویر بنا سکتا ہوں میں

وعدوں قسموں رسموں کی زنجیروں کو

تو جو بلائے توڑ کے آسکتا ہوں میں

تیشہء فرہاد ہے میرے پاس ابھی

راہ کے سب کہسار ہٹا سکتا ہوں میں

اس کو منزل میں جب دکھا آیا

 اس کو منزل میں جب دکھا آیا

خود کو رستہ میں تب بنا آیا

پاؤں چومے تھے جس گھڑی ماں کے

مجھ سے ملنے، مرا خدا آیا

یاں سے رستہ خدا کو جاتا ہے

سب سے پہلے میں کربلا آیا

لگتا تھا گھر اداس ہے بیرون گھر رہا

 لگتا تھا گھر اداس ہے بیرون گھر رہا

سردی میں اکڑا اکڑا جیسے شجر رہا

میرے خزان میں نہ ہوئی کایا پلٹ کبھی

چند پھول مسکرائے مگر بے ثمر رہا

لوگوں سے بھاگتا ہوا قندیل کا دھواں

تکتا کسی کی یاد میں جو رہگزر رہا

Friday 29 March 2024

مسلمانو تمہیں پھر دیں پہ چلنے کی ضرورت ہے

 مسلمانو تمہیں پھر دیں پہ چلنے کی ضرورت ہے

خدا کی راہ میں سب کو نکلنے کی ضرورت ہے

جو وقت آئے تو شعلوں میں بھی جلنے کی ضرورت ہے

رہِ حق میں تمہیں کانٹوں پہ چلنے کی ضرورت ہے

چلوں سینچیں گے ہم خونِ جگر سے گلشن دیں کو

اسے اب پھولنے کی اور پھلنے کی ضرورت ہے

یہ اندھیروں کے مجاور ہیں یہ ظلمات فروش

 یہ اندھیروں کے مجاور ہیں یہ ظلمات فروش 

یہ یزیدوں کے مقلد ہیں غلامی کے سفیر 

یہ سوا لاکھ شہیدوں کے لہو کے تاجر 

مرے کشمیر کے غدار ذلالت کے امام 

یہ زمانوں سے منافق یہ جہالت کے امین 

یہ جو راندہ گردوں ہیں یہی ننگ زمین 

کج روی کو چھوڑ ہمدم

 کج روی کو چھوڑ ہمدم

ڈُھونڈ غم کا توڑ ہمدم

اس سفر سے تھک چُکے ہم

لا حسِیں اب موڑ ہمدم

ہم جنہیں ہیں توڑ بیٹھے

سلسلے وہ جوڑ ہمدم

پھیل جاتی ہے کو بہ کو آواز

 پھیل جاتی ہے کو بہ کو آواز

کس کی رکھتی ہے جستجو آواز

شبِ فرقت میں کون ہے ہمسر؟

کاش دیتا کوئی عدو آواز

رازِ عرفاں سے اٹھ گۓ پردے

کون دیتا ہے با وضو آواز

یہ سب میرے جنم دن کی خوشی میں ہے

 یہ سب میرے جنم دن کی خوشی میں ہے

یہ سب میری تمناؤں سے بڑھ کر ہے

کوئی ایسی بھی شے ہے جو

مجھ جیسے کم صفت کے ان تحائف میں

نہ شامل ہو

اگر کم ہے تو اک رومال کم ہے

دیے کی نبض تو رکنے لگی ہے

 دِیے کی نبض تو رُکنے لگی ہے

ہوا کے ساتھ بهی کافی ہوئی ہے

جرّی نے بزدلوں پر وار کر کے

بس اپنی تیغ کی توہین کی ہے

اندهیرا کر سکیں گے جس سے ہم لوگ

اب ایسی روشنی بهی آ گئی ہے

جب چراغوں پہ ہواؤں کے ستم ٹوٹ گئے

 جب چراغوں پہ ہواؤں کے سِتم ٹُوٹ گئے

شب کو خورشید پہ جتنے تھے بھرم ٹوٹ گئے

ہم کو رکھنے کا سليقہ بھی نہیں تھا اس کو

اس قدر زور سے پٹکا ہے کہ ہم ٹوٹ گئے

آج اس دل میں دبے پاؤں تیری یاد آئی

سانس لیتے ہوئے کتنے ہی قدم ٹوٹ گئے

Thursday 28 March 2024

یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں

 یہ بات کیا ہے کہ دل کو ذرا لگاتے ہیں 

لگانا ہو تو پھر اچھی طرح لگاتے ہیں 

دبا کے رکھا ہے گہری گھٹن میں تو نے اسے

ادھر تو آ، ترے دل کو ہوا لگاتے ہیں

وہ بات کرتے تھے میری وفا پرستی کی

مجھے لگا کہ وہ الزام سا لگاتے ہیں 

کیکٹس کے جنگل میں شام ہو گئی مجھ کو

 کیکٹس کے جنگل میں


کیکٹس کے جنگل میں

شام ہو گئی مجھ کو

راستہ نہیں ملتا

ہر طرف اندھیرا ہے

اور میری تنہائی

کون مجھ کو ڈھونڈے گا

محبت جن سے کرتے ہیں

 محبت جن سے کرتے ہیں


محبت جن سے کرتے ہیں

محبت جو بھی کرتے ہیں

سبھی انسان ہوتے ہیں

اگر انسان سے کوئی خطا ہو جائے تو اس کو

کٹہرے میں کھڑا کرتے نہیں ہیں

اس کی آنکھیں چوم کر تنبیہ کرتے ہیں

یہ کیا کہ زخم بھر گیا

 یہ کیا کہ زخم بھر گیا

رقیبِ جاں کدھر گیا

قدم یہ کون دھر گیا

چمن چمن نکھر گیا

سنا ہے قیس دشت میں

تڑپ تڑپ کے مر گیا

نہیں کچھ کام کا بیکار ہوں میں

 نہیں کچھ کام کا بیکار ہوں میں

غبار کوچہ و بازار ہوں میں

نظر سے دیکھ نہ نفرت کی مجھ کو

محبت! تیرا رشتہ دار ہوں میں

ابھی تنہائیاں ہیں پاس مِرے

ابھی محوِ تلاشِ یار ہوں میں

بے سبب دل کی بستی سے جب ہم چلے

 بے یقینی کے سفر پر


بے سبب دل کی بستی سے جب ہم چلے

چار موسم مزاجوں میں آباد تھے

تھوڑی گرمی تھی جذبات کے روپ میں 

ایک ٹھنڈک سی تھی ریشمی دھوپ میں 

غم رسیدہ خزاں کچھ دنوں کے لیے

اور کچھ دن بہاروں کے موسم بھی تھے

Wednesday 27 March 2024

شہر کو تیری جستجو ہے بہت

 شہر کو تیری جُستجُو ہے بہت

ان دنوں ہم پہ گُفتگو ہے بہت

جب سے پرواز کے شریک مِلے

گھر بنانے کی آرزو ہے بہت

درد رہ رہ کر سر اُٹھاتا ہے

کبھی کم ہو گیا، کبھو ہے بہت

اور دھرتی کے محروم انسان

 اور

دھرتی کے محروم انسان

میر ے اپنے قصبے کے غریب

موچی، نائی، جُلاہا، دھوبی اور ترکھان، لوہار

یہ بچارے کسان

جن کی پوری نسلیں

زندگی اور گھرانے

تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل

 مسجد قرطبہ


تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل

تیری بنا پائیدار، تیرے ستوں بےشمار

شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل

اس کی زمہن بےحدود، اس کا فلک بےثغور

اس کے سمندر کی موج دجلہ و دینوب و نیل

دلبر کے در پر میں تو دیوانہ ہو رہا ہوں

 کلاسیکی شاعری

سندھی شاعری سے اردو ترجمہ


دلبر کے در پر میں تو دیوانہ ہو رہا ہوں

یارو میں دو جہاں سے بیگانہ ہو رہا ہوں

یہ عقل فہم اس کے دیدار نے اڑایا

زلفوں کے پیچ و خم میں مستانہ ہو رہا ہوں

آئے گا جوں وہ دلبر تیروں کی ہو گی بارش

سینہ سپر ہے سچل نشانہ ہو رہا ہوں

جان جاناں نہ رہا جان پہ بن آئی ہے

 جانِ جاناں نہ رہا، جان پہ بن آئی ہے

زندگی پیار کی ہم کو نہ ذرا بھائی ہے

خوفِ دوزخ سے نہ جنّت کی طلب میں سجدہ

میری بے لوث عبادت تِری شیدائی ہے

ٹُوٹ کر رہ گئی ہر شاخِ شجر آندھی میں

اب چمن میں یہ صبا کس کے لیے آئی ہے؟

ہر ایک شکل میں نکلی بس اک تری صورت

 ہر ایک شکل میں نکلی بس اک تری صورت

ہر ایک شکل کہ ٹھہری ہری بھری صورت

تری تلاش میں نکلے تو کیسی راس آئی

یہی حیات کہ کٹتی نہ تھی کسی صورت

تمہارا نام لیا تو چراغ جل اٹھے

سیاہ رات میں چلنے کی پھر بنی صورت

اب اپنی پہچان بنا کر چھوڑوں گا

 اب اپنی پہچان بنا کر چھوڑوں گا

میں خود کو انسان بنا کر چھوڑوں گا

اب کہ زور نہیں چلنے دینا اِس کا

عشق کو میں دربان بنا کر چھوڑوں گا

زہر کشید کروں گا تھوڑی سی تم سے

اور پھر اک حیوان بنا کر چھوڑوں گا

صحرا کو دیکھتا ہوں کبھی اپنے گھر کو میں

 صحرا کو دیکھتا ہوں کبھی اپنے گھر کو میں

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ جاؤں کدھر کو میں

بدلے دل و نگاہ تو ہر شے بدل گئی

حیرت سے دیکھتا ہوں ترے بام و در کو میں

غیروں کا جام بھرتے ہو آنکھیں بچا کے کیوں

پہچانتا ہوں خوب تمہاری نظر کو میں

میری دھرتی کے گل بوٹے ترستے ہیں بہاروں کو

 میری دھرتی کے گُل بُوٹے ترستے ہیں بہاروں کو

پرندے ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں جنت میں نظاروں کو

گِری ہیں بجلیاں ایسی، بھسم ہی ہو چلا گُلشن

جوانو! جاگ جاؤ تم، بُجھا دو ان شراروں کو

شجر ہیں بے ثمر اس کے نہیں کِھلتے یہ غُنچے بھی

بچاؤ ان بگولوں سے وطن کے لالہ زاروں کو

نظر نشانے پہ تھی تیر بھی کمان میں تھا

 نظر نشانے پہ تھی تیر بھی کمان میں تھا

ہوا چلے گی اچانک، کہاں گمان میں تھا

مجھے بھی کرنا وہی تھا ، جو کر دیا اس نے

پہ ایک خوفِ خدا تھا جو درمیان میں تھا

زمیں کا بویا بھی کیا آسماں پہ کٹنا تھا

کیے دھرے کا نتیجہ اسی جہان میں تھا

Tuesday 26 March 2024

ہم لوگ کتابوں والے بے مول سے خوابوں والے

 ہم لوگ کتابوں والے

بے مول سے خوابوں والے

ہے الگ ہی ہماری دُنیا

ہیں لفظ ہی ہمارے، ساری دُنیا

جذبات جب اُدھم مچاتے ہیں

الفاظ کا مے خانہ ہم سجاتے ہیں

اے بھائی چارعادتیں دنیا میں بادشاہوں کے لیے نقصان دہ

 در سیرتِ ملوک (بادشاہوں کی عادات کا بیان)


چار خصلت اے برادر در جہاں

اے بھائی چار عادتیں دنیا میں

پادشاہاں را ہمی دارد زیاں

بادشاہوں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں

پادشہ چوں برملا خنداں بود

بادشاہ مجمعِ عام میں ہنستا رہتا ہے

ٹہنیوں شاخوں والی جنت پاس کھڑی شرمیلی حُوریں

 جنت


ٹہنیوں شاخوں والی جنت

پاس کھڑی شرمیلی حُوریں

چمکتی اور رنگیلی حُوریں

جنت میں تقسیم ہوئی ہیں

شیخ نے بولا ستر حوریں کافی کم ہیں

میں مسند پہ دور کہیں 

شکستہ کشتی ہے لیکن اتر نہیں سکتا

 شکستہ کشتی ہے لیکن اتر نہیں سکتا

میں اپنے عہد وفا سے مُکر نہیں سکتا

تُو اپنی چشمِ نوازش کو اور کھولتا جا

یہ میرا دل ہے مرے دوست بھر نہیں سکتا

کچھ اپنے ساتھ محبت، کچھ اپنے ساتھ وفا

میں چاہتا ہوں کروں، پھر بھی کر نہیں سکتا

تیری آواز کے تعاقب میں میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں

 تیری آواز کے تعاقب میں


میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں

گھپ اندھیری ہے زندگی میری

روشنی کا کوئی اشارہ نہیں

رہنمائی کو اب ستارہ نہیں

منزلوں کی تلاش، لاحاصل

اک سفر ہے کہ جو مسلسل ہے

Monday 25 March 2024

غم زندگی ہے اور شام و سحر ہے

 غم زندگی ہے اور شام و سحر ہے

یہ رونا زندگی کا عمر بھر ہے

یہاں کچھ بھی نہیں جُز حسرت و یاس

یہ دل ہے یا کسی شاعر کا گھر ہے

اِدھر اک عالمِ شوقِ فراواں

اُدھر اُس کی نگاہِ بے خبر ہے

تم سا گر راہبر نہیں ہوتا

 تم سا گر راہبر نہیں ہوتا

کوئی بھی راہ پر نہیں ہوتا

راستے بھی فریب دیتے ہیں

جب کوئی ہمسفر نہیں ہوتا

اس کی یادیں جو ہمسفر ہوتیں

تو سفر طول تر نہیں ہوتا

میں جس کے در گیا وہی عالی مقام تھا

 میں جس کے در گیا، وہی عالی مقام تھا

سب حاکموں کے شہر میں، میں ہی عوام تھا

کٹھ پُتلیوں کی طرح سے ہے اب نچا رہا

ظالم کبھی یہ وقت بھی اپنا غلام تھا

نِکلا جو داستاں سے تو اس پہ شباب تھا

آیا جو لوٹ کر ہوں تو قصہ تمام تھا

قصہ ایک دیوار کا دوزخ کے باسیوں نے وہ دیوار توڑ دی

 قصہ ایک دیوار کا


دوزخ کے باسیوں نے وہ دیوار توڑ دی

جو ان کے اور بہشت کے مابین تھی کھڑی

شعلے شجر سے لِپٹے، شرر بار ہو گئے

نازک مزاج جنتی بیمار ہو گئے

جُھلسے جو ان کے چہرے تو دیکھا اِدھر اُدھر

کوئی مطب نہیں تھا میسٗر، نہ ڈاکٹر

گلوبل وارمنگ نسل آدم کہاں سو رہی ہے

 گلوبل وارمنگ (Global Warming)


گلی میں جو نکلا

تو گالوں پہ گرمی کے تھپڑ پڑے

چونک کر میں نے دیکھا

حرارت بھرے فاصلے پر بگولہ کھڑا تھا

وہ تھا باد زادہ

مگر گرد کے ایک چکر میں تھا

Sunday 24 March 2024

یہ میری سکونت کا کیا خوب بہانہ ہے

 یہ میری سکونت کا کیا خوب بہانہ ہے

دل میں تِری چاہت کا بھرپور خزانہ ہے

لہجے میں مِرے تو ہے جھلکے ہے نگاہوں میں

تن کا یہ مِرے پنجرہ تیرا ہی تو خانہ ہے

تُو میرا زمانہ ہے تُو ہی مِری دنیا ہے

تُو ہی مِری دنیا ہے تُو میرا زمانہ ہے

زمانہ کرتا ہے لیکن یہ ہم نہیں کرتے

 زمانہ کرتا ہے لیکن یہ ہم نہیں کرتے

خدا کے بندوں پہ ہرگز ستم نہیں کرتے

ذخیرہ ختم ہوا ہے ہمارے اشکوں کا

ہم اس لیے بھی ان آنکھوں کو نم نہیں کرتے

ہماری عمر میں خوشیوں سے غم زیادہ ہیں

خوشی کو غم سے کبھی محترم نہیں کرتے

دو انگلیوں سے نشاں جیت کا بناتے ہوئے

 دو انگلیوں سے نشاں جیت کا بناتے ہوئے

چلے ہیں سُوئے قفس چور مسکراتے ہوئے

میں عادلوں کی عدالت سے خوب واقف ہوں

یہ مجرِمین رِہا ہوں گے دندناتے ہوئے

وہ خود کو کرتے ہیں ظاہر شہید ابنِ شہید

جو پکڑے جائیں سرے کا محل چھپاتے ہوئے

جب سازش حادثہ کہلائے اٹھو کہ حفاظت لازم ہے

 سازش


جب سازش حادثہ کہلائے

اور سازش کرنے والوں کو گدی پر بٹھایا جانے لگے

جمہور کا ہر ایک نقش قدم

ٹھوکر سے مٹایا جانے لگے

جب خون سے لت پت ہاتھوں میں

اس دیش کا پرچم آ جائے

تحفظ اور سکوں کی انتہا ہے واسطے میرے

 بیٹیاں اور باپ


تحفظ اور سکوں کی انتہا ہے واسطے میرے

مجھے پوچھو کہ میرا باپ کیا ہے واسطے میرے 


میرا بابل میں جس سے میں  ناز اٹھوانے کی عادی  ہوں

میں جس کے واسطے روز ازل سے شہزادی  ہوں 

مری جو ان کہی سمجھے، مرے خوابوں کو پہچانے 

کمر اس کی میری پہلی سواری، اور پھر شانے 

Saturday 23 March 2024

وفا میں پیکر ایثار بننا کتنا مشکل ہے

 وفا میں پیکر ایثار بننا کتنا مشکل ہے

کسی کے پیار کا حقدار بننا کتنا مشکل ہے

مسائل ہر قبیلے کے سمجھ لینا تو ہے آساں

قبیلے کا مگر سردار بننا کتنا مشکل ہے

تصادم ہے یہاں باہم مفادات خصوصی ہیں

یہاں پر غیر جانبدار بننا کتنا مشکل ہے

بے خبری کی آغوش انہیں سردی نہیں لگتی

 بے خبری کی آغوش


انہیں سردی نہیں لگتی

انہیں ذِلّت کی ساعت نے پرانے سیم نالوں کے

کناروں پر گھسیٹا ہے

اور ان کے کالے ہونٹوں پر

لگی ہے مُہر صدیوں سے

یہ کلّر تھور دھرتی میں

ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے

 کفن چور


کچھ نہیں گھر میں مِرے کچھ بھی نہیں

کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا

لقمۂ نانِ جوِیں، خون کو دھکا دیتا

من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر

کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں

رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا

Friday 22 March 2024

یہ ارض وطن میری تمناؤں کا گھر ہے

وطن کے لیے


یہ ارض وطن میری تمناؤں کا گھر ہے

یہ پاک زمین دشت میں خوشبو کا سفر ہے

اقبال کے خوابوں کی ہے تعبیر یہ دھرتی

قائد کی مِرے، جہدِ مسلسل کا اجر ہے

تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا صِلہ ہے

شہداء کی یہ قربانیوں، جانوں کا ثمر ہے

کھل کے آ جائے گی ہر بات ذرا صبر کرو

 کھل کے آ جائے گی ہر بات، ذرا صبر کرو

وقت ہے کاشفِ حالات، ذرا صبر کرو

صبح نکلے گی تو ہو جائے گی ظاہر ہر شے 

چند گھڑیوں کی ہے یہ رات، ذرا صبر کرو 

سامنے کون ہے اور کون پسِ پردہ ہے؟

چھپ سکے گی نہ کوئی بات، ذرا صبر کرو

عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں

 عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں

اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں

زندگی ہے مِری ٹھہرا ہوا پانی جیسے

ایک کنکر سے بھی ہو جاتی ہے ہلچل مجھ میں

میں بظاہر تو ہوں اک ذرہ زمیں پر، لیکن

اپنے ہونے کا ہے احساس مکمل مجھ میں

ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا

 ہوس و وفا کی سیاستوں میں بھی کامیاب نہیں رہا 

کوئی چہرہ ایسا بھی چاہیے جو پس نقاب نہیں رہا 

تِری آرزو سے بھی کیوں نہیں غم زندگی میں کوئی کمی 

یہ سوال وہ ہے کہ جس کا اب کوئی اک جواب نہیں رہا 

تھیں سماعتیں سر ہاؤ ہو چھڑی قصہ خانوں کی گفتگو 

وہی جس نے بزم سجائی تھی وہی باریاب نہیں رہا 

نئی کتابوں میں یہ بھی لکھنا

 نئی کتابوں میں یہ بھی لکھنا

کہ پچھلا سارا سفر 

تو ریت اور دھوپ کا تھا 

درخت کے سائے میں فنا 

اور ثمر میں زہریلے ذائقے تھے 

ہوا سے پیاس اور خاک سے بھوک

میں نے مہکائے ہیں شعلے میں نے دہکائے ہیں پھول

 ابنِ آدم


میں نے مہکائے ہیں شعلے، میں نے دہکائے ہیں پھول

میں نے کاٹے ہیں صنوبر، میں نے چُومے ہیں ببول 

میں نے ڈھالے ہیں عزائم، میں نے توڑے ہیں اصول 

ولولے میرے  پیمبر، ہمہمے میرے رسول 

کون کہتا ہے کہ میں فانی ہوں مشتِ خاک ہوں 

میں زمیں کا فخر ہوں، میں  نازشِ افلاک ہوں

طاقت ہو کسی میں تو مٹائے مری ہستی

 فرقہ پرستی


طاقت ہو کسی میں تو مٹائے مری ہستی 

ڈائن ہے مرا نام، لقب ہے فرقہ پرستی 

میں نے بڑی چالاکی سے اک کام کیا ہے 

پہلے ہی محبت کا گلا گھونٹ دیا ہے 

میں فتنے اٹھا دیتی ہوں ہر اٹھتے قدم سے 

اس دیش کے ٹکڑے بھی ہوئے میرے ہی دم سے 

Thursday 21 March 2024

چلمن شرم و حیا رخ سے اٹھا دی جائے

 چلمنِ شرم و حیا رُخ سے اُٹھا دی جائے

اب نہ جذبات کے شعلوں کو ہوا دی جائے

پیار کرنا ہے اگر جُرم تو دنیا والو

میں بھی مجرم ہوں جو جی چاہے سزادی جائے

رکھ کے مرہم کوئی مظلوم کے زخموں پہ نیا

داستاں ظُلم و تشدد کی دبا دی جائے

Wednesday 20 March 2024

جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا

 جب سبق دے انہیں آئینہ خود آرائی کا

 حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا

نقش ہی نقش وہ میری ہی جبیں سائی کا 

حال کیوں پوچھیں بھلا وہ کسی سودائی کا

محو ہے عکس دو عالم مری آنکھوں میں مگر

تو نظر آتا ہے مرکز مِری بینائی کا

مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی ترے بعد بھی

 مجھے کاٹنی تھی ہنسی خوشی تِرے بعد بھی

نمی آنکھ میں نہیں آ سکی ترے بعد بھی

تُو ہُوا نہیں، تجھے مجھ سے دُور کیا گیا

مِرے ساتھ ہیں کئی سازشی ترے بعد بھی

مجھے روشنی کی طلب نہیں تھی، اسی لیے

مِرے پاس ہے وہی تیرگی ترے بعد بھی

کوئی رت بھی نہیں دنیا میں سہانی دل سے

 کوئی رُت بھی نہیں دنیا میں سُہانی دل سے

کتنی بے کیف رہی نقل مکانی دل سے

تم نے جو درد کا بادل سا اُمڈتے دیکھا

یہ تو نِکلی ہے مِری رنج بیانی دل سے 

کتنے چہرے ہیں نئے، آنکھ میں آتے جاتے

ہائے، جاتی ہی نہیں شکل پرانی دل سے

سخن سے بھرتے تھے صفحات، کاٹ دیتے تھے

سخن سے بھرتے تھے صفحات، کاٹ دیتے تھے

ہم اِس عمل میں ہر اک رات کاٹ دیتے تھے

دُکھی نہ ہو، فقط اُجرت کٹی ہے، اے معمار

سنا ہے پہلے یہاں ہاتھ کاٹ دیتے تھے

فرشتے میری مناجات لکھتے تھے، لیکن

خدا سے میری شکایات کاٹ دیتے تھے

Tuesday 19 March 2024

خبر پیک اشک آ کے یہ کہہ گیا

 خبر پیک اشک آ کے یہ کہہ گیا

پھپھولوں میں دل پھوٹ کر بہہ گیا

جب آئینہ خانے میں وہ مہ گیا

ہر آئینہ منہ دیکھ کر رہ گیا

چھٹا غم سے سر پھوڑ کر کوہکن

بڑی سر کھپی سے کڑی سہ گیا

Monday 18 March 2024

گھر کے آنگن میں جو دیوار اٹھا دیتے ہیں

 گھر کے آنگن میں جو دیوار اٹھا دیتے ہیں

وہ، مسلسل کسی فتنے کو ہوا دیتے ہیں

سُرخ، پتھر کی حویلی سے نسب ملتا ہے

 ہم محبت کی ہری شاخ، جلا دیتے ہیں

گو، کہ معلوم ہے فرعون صفت ہو پھر بھی

چل تِِرے ہاتھ میں موسیٰ کا عصا دیتے ہیں

سر شام جب بھی دیا جلا تو خیال تیری طرف گیا

 سرِ شام جب بھی دِیا جلا تو خیال تیری طرف گیا

کوئی تازہ بابِ سخن کُھلا تو خیال تیری طرف گیا

کسی اجنبی سے دیار میں، کسی بےکسی کے غبار میں

کوئی اپنے شہر کا مِل گیا تو خیال تیری طرف گیا

کوئی شام دل کو بھلی لگی تو زمیں ستاروں سے بھر گئی

کہیں چاند ابر میں چُھپ گیا تو خیال تیری طرف گیا

کشمکش ہے زندگی میں وہ کہ حاصل کچھ نہیں

 کشمکش ہے زندگی میں وہ کہ حاصل کچھ نہیں

میں کسی قابل نہیں، یا میرے قابل کچھ نہیں

ٹھہرے پانی کی طرح ساکت ہے اپنی زندگی

ایک مدت سے ہمارے دل میں ہلچل کچھ نہیں

ایک لمحہ ہی کوئی ہو درد سے خالی کہاں

اور بظاہر جسم و جاں میں ایسا گھائل کچھ نہیں

یہ اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم تحریر کرتا ہے

  یہ اپنوں کے بچھڑ جانے کا غم تحریر کرتا ہے

کہ جو صدیوں پہ بیتی ہے قلم تحریر کرتا ہے

میرے دل کی طرح میرا قلم بھی ایسا پاگل ہے

میں خوشیاں ہوں اسے کہتا، الم تحریر کرتا ہے

مچلتا کاغذوں کے ساتھ اتنا شوخ چنچل ہے

غزل لکھنے کا کہہ کر یہ نظم تحریر کرتا ہے

تم یہ جن کو چارہ گر بنائے بیٹھے ہو

  تم یہ جن کو چارہ گر بنائے بیٹھے ہو

یہ کیا بھولے پن کا در سجائے بیٹھے ہو

محلوں کے باسی مفلسی دور کریں گے؟

باطل سے کیا اُمیدِ گھر بسائے بیٹھے ہو

جن کی عشرتوں سے اجڑا ہے چمن اپنا

ان سے آسِ بال و پر لگائے بیٹھے ہو

Sunday 17 March 2024

یہ چہرہ ہے گل ہے یہ گلشن ہے کیا ہے

یہ چہرہ ہے گل ہے یہ گلشن ہے کیا ہے

 سویرا ہے شبنم ہے درپن ہے کیا ہے

یہ شرم اور تبسم یہ آنکھوں میں کاجل

ادا ہے کلی ہے کہ بچپن ہے کیا ہے

نظر جھک رہی ہے خموشی ہے لب پر

حیا ہے ادا ہے کہ ان بن ہے کیا ہے

ہے تحیر زدہ اس شہر میں خاموشی بھی

 ہے تحیر زدہ اس شہر میں خاموشی بھی

کہ سنائی نہیں دیتی کوئی سرگوشی بھی

دل گرفتار تذبذب ہے کدھر کو جائے

گھر بھی یاد آتا ہے اور دشت فراموشی بھی

یہ حقیقت ہے کہ بے مثل ہے خود اس کی طرح

اس خوش اندام کی خوش باشی و خوش پوشی بھی

پچھلے ہجر کا موسم سارا پوچھے گا

 پچھلے ہجر کا موسم سارا پوچھے گا

کم بولے گا لیکن اتنا پوچھے گا

کوئی تو مشورہ لے گا عشق کے بارے میں

کوئی تو آئے گا مجھ سے رستہ پوچھے گا

ہر لہجے میں ڈھونڈے گا میری آواز

جس سے بات کرے گا میرا پوچھے گا

میں دیکھنے میں تو حوصلے سے کھڑا ہوا تھا

 میں دیکھنے میں تو حوصلے سے کھڑا ہوا تھا

مگر میں اندر سے یار پورا ڈرا ہوا تھا

تو میرے لاشے پہ اس قدر بھی نہ ہو فسردہ

میں اپنے مرنے سے پہلے بھی تو مرا ہوا تھا

یہ نیم گریہ، سکوت شب اور ذرا سی وحشت

خدا سے ملنے کا اک وسیلہ بنا ہوا تھا

بدن تھکے ہوئے، مسدود راستے ہیں دکھ

 بدن تھکے ہوئے مسدود راستے ہیں دکھ

جو منزلوں پہ نہ پہنچے وہ قافلے ہیں دکھ

کھلے گلاب، کھلی کھڑکیاں، حسین چہرے

جہاں گئے ہیں وہیں ہم کو مل گئے ہیں دکھ

تمہارے نقش قدم، شاخ سے گرے پتے

ہماری راہ میں کتنے بچھے ہوئے ہیں دکھ

Saturday 16 March 2024

کیوں تجھے ڈر ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گی

 کیوں تجھے ڈر ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گی

میں تو نکہت ہوں، فضاؤں میں بکھر جاؤں گی

ساری دنیا سے کٹی ہوں تجھے پانے کے لیے

تُو نے ٹُھکرا دیا مجھ کو تو کدھر جاؤں گی

تُو مِرے حالِ پریشاں سے پریشان نہ ہو

لمس پا کر تِری خُوشبو کا میں نکھر جاؤں گی

وہ سو رہا ہے خدا دور آسمانوں میں

 وہ سو رہا ہے خُدا دُور آسمانوں میں

فرشتے لوریاں گاتے ہیں اس کے کانوں میں

زمیں پہ گرتے ہیں کٹ کٹ کے سر فرشتوں کے

عجیب زلزلہ آیا ہے آسمانوں میں

سڑک پہ آ گئے سب لوگ بلبلاتے ہوئے

نہ جانے کون مکیں آ گئے مکانوں میں

برستی کم ہے پہ برسات تو کمال کی ہے

 برستی کم ہے، پہ برسات تو کمال کی ہے

وقار ہے یا خرافات، تو کمال کی ہے

کسی میں کچھ بھی نہیں ہے ارے! ترے جیسا

جدا سبھی سے حسیں بات، تو کمال کی ہے

ادھار تیرے لبوں سے شہد مٹھاس کا لے

اسے بھی علم ہے سوغات تو کمال کی ہے

شب فراق کا مارا ہوں دل گرفتہ ہوں

 شب فراق کا مارا ہوں، دل گرفتہ ہوں

چراغ تیرہ شبی ہوں میں جلتا رہتا ہوں

کبھی کا مار دیا ہوتا زندگی نے مجھے

یہ شکر ہے کہ میں زندہ دلی سے زندہ ہوں

کوئی فریب تمنا، نہ جلوہ اور نہ خیال

دیار عشق میں تنہا تھا، اور تنہا ہوں

مٹا ہے کبر عبادت کس اہتمام کے ساتھ

 مٹا ہے کبرِ عبادت کس اہتمام کے ساتھ

کہ دو سجود ہیں واجب ہر اک قیام کے ساتھ

نہ تھی جو فکر مسلسل سبک مزاجوں کی

ہر ایک سمت میں دوڑے ہوائے بام کے ساتھ

زباں پہ حرفِ دعا ہے تو ساتھ دل بھی جھکے

کِیا درودﷺ کو واجب مگر سلام کے ساتھ

Friday 15 March 2024

لازم ہے اس جہان میں پہچان ڈھونڈنا

 لازم ہے اس جہان میں پہچان ڈھونڈنا

عنوان زندگی کا مِری جان ڈھونڈنا

پہلے تم اپنا دستِ محبت کرو دراز

اور اس کے بعد سایۂ امکان ڈھونڈنا

مانا یہ بزم اپنے ہی لوگوں کی بزم ہے

لہجے میں جو چُھپے ہیں وہ پیکان ڈھونڈنا

نہ ابتداء ہے نہ کوئی انجام آج کل

 نہ ابتداء ہے نہ کوئی انجام آج کل

دن سارے ہو گئے ہیں بے نام آج کل

انسان ڈر رہا ہے انساں کے ساتھ سے

پھیلا ہوا ہے خوف سا ہر گام آج کل

فردا کا خوف ہے کبھی ماضی کے تذکرے

بے حال ہے ہماری ہر شام آج کل

اور کیا تجھ سے ترے خاک بہ سر مانگتے ہیں

 اور کیا تجھ سے ترے خاک بہ سر مانگتے ہیں

صرف لے دے کے یہ توفیقِ ہنر مانگتے ہیں

اے کہ صحراؤں میں خورشیدِ تمازت کے خدا

ابر پارے نہیں بس ایک شجر مانگتے ہیں

ہجرتیں فرضِ کفایہ نہیں رہنی اب کے

سو اپاہج بھی یہاں اذنِ سفر مانگتے ہیں

صحن میں پھیلی ہے تلخ تر رات کی رانی کی مہک

 معنی کی تلاش میں مرتے لفظ


صحن میں پھیلی ہے

تلخ تر رات کی رانی کی مہک

کمرۂ حیرت میں

خواب کی شہزادی

بال بکھرائے مرے سینے پر

کب سے اک خواب ابد میں گم ہے

اپنے پندار انا میں ایسا دیوانہ ہوا

 اپنے پندار انا میں ایسا دیوانہ ہوا

چاندنی راتوں میں وہ دیکھا گیا روتا ہوا

اس کا ہر اک فعل تھا سوچا ہوا، سمجھا ہوا

دشتِ جاں میں میرے اک آہو تھا وہ بھٹکا ہوا

بے وفا اب بھی ہے ذہن پرچھایا ہوا

لوگ کہتے ہیں کہ سارے شہر میں رُسوا ہوا

Thursday 14 March 2024

سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے

 سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے


سنو شکوے گلے اچھے نہیں لگتے

چلو کچھ دیر کو اس سلسلے کو چھوڑ کر دیکھو

ذرا دُکھ نا تمامی کے یہاں پر بُھول کر سوچو 

غموں کا بار اوروں کے کبھی خود بھی اُٹھا لو تم 

خزاں کی رُت میں بھی ابر بہاراں کی دُعا دو تم 

پرندے چہچہاتے ہر شجر کے ہوں

وطن میں کوئی کہیں اک نشاں ہے تو سہی

 وطن میں کوئی کہیں اک نشاں ہے تو سہی

جلا ہوا ہے مگر اک مکان ہے تو سہی

کبھی رُلاتی تو ہو گی تجھے بھی یاد میری

یقین مجھ کو نہیں پر گمان ہے تو سہی

زبان گنگ ہے کہنے سے کچھ قاصر ہے

پر آنکھ دل کی میرے ترجمان ہے تو سہی

اس کو کرنا تھی بے وفائی کی

 اس کو کرنا تھی بے وفائی کی

ہم نے کیوں زور آزمائی کی

اس نے بس یوں ہی یاد کر ڈالا

ہم نے بھی رسم کی ادائی کی

لیں محبت کی ڈگریاں ہم نے

اس نے قانون کی پڑھائی کی

محبت کی صہبا پلانے چلا ہوں

 محبت کی صہبا پلانے چلا ہوں

زمانے کو انساں بنانے چلا ہوں

خوشی اہلِ گلشن کو یہ سن کے ہو گی

مسرت کے نغمے سنانے چلا ہوں

چراغ رخ مہر و انجم کو لے کر

زمانے کی ظلمت مٹانے چلا ہوں

روشنی لالٹین سے مقدم ہے

 روشنی لالٹین سے مقدّم ہے


روشنی لالٹین سے مقدّم ہے

نظم ڈائری سے زیادہ اہم ہے

اور بوسہ لبوں سے زیادہ قیمتی ہے

تمہارے نام میرے خط

ہم دونوں سے زیادہ عظیم بھی ہیں اور مقدّم بھی

صرف یہی وہ دستاویز ہیں

سیاست کر لو لاشوں پر

 سیاست کر لو لاشوں پر​

کہ ان میں کوئی بھی لاشہ​

نہ بھائی ہے تمہارا​

اور نہ بیٹا ہے نہ بیٹی ہے​

نہ ان سے درد کا بندھن​

نہ کوئی خون کا رشتہ

گر چاہتے ہو فرش سے افلاک پہ رکھو

 گر چاہتے ہو فرش سے افلاک پہ رکھو

اک بار مجھے پھر سے ذرا چاک پہ رکھو

اک برف کی سِل قلبِ پریشاں پہ اتارو

اک دشت مِرے دیدۂ نمناک پہ رکھو

تم رمزِ شہادت کے معانی نہیں سمجھے

سر نوک کی سدرہ پہ، بدن خاک پہ رکھو

لوگوں کو دے سکے نہ جو کوئی ثمر بھلا

 لوگوں کو دے سکے نہ جو کوئی ثمر بھلا

ایسے ہنر وروں سے تو میں بے ہنر بھلا

تم پھر سے چل پڑے ہو محبت کی راہ پر

کرتا ہے کوئی کام یہ بارِ دگر بھلا

یادوں میں آ گیا کوئی بھولا ہوا خیال

شعروں میں آ گیا ہے پلٹ کر اثر بھلا

کون کہتا ہے تجھے اپنایا نہیں گیا

 کون کہتا ہے تُجھے اپنایا نہیں گیا

تمہیں میری جاں ٹُھکرایا نہیں گیا

پری چہروں پہ جو اُداسیاں نُمایاں ہیں

لگتا ہے ناز نخروں کو اُٹھایا نہیں گیا

پَروان چَڑھتا دِلوں میں عِشق کیونکر

جب اُسے خونِ جِگر پِلایا نہیں گیا

آج گھبرا کے پھر وحشتِ ذات سے

آج گھبرا کے پھر وحشتِ ذات سے

روشنی مانگ لی ہے سیہ رات سے

پارہ پارہ ہوئی خامشی حال کی

شور اٹھا وہ یادوں کی بارات سے

بے ہنر اہلِ زر نامور ہو گئے

وہ جو واقف نہیں تھے کمالات سے

Wednesday 13 March 2024

سب نے مجھ سے کیا ہے کنارا

 سب نے مجھ سے کیا ہے کنارا

صرف تیرا ہے یا رب سہارا

اشک غم یوں ہی بہتے رہیں گے

یا رکے گا کبھی غم کا دھارا

میری کشتی ہے طوفاں کی زد میں

مل گیا بحر غم کا کنارا

تمہیں دل نے پکارا ہے کہاں ہو تم چلے آؤ

 تمہیں دل نے پکارا ہے، کہاں ہو تم چلے آؤ​

بہت ہی تم کو ڈھونڈا ہے، کہاں ہو تم چلے آؤ​

تمہارے بن نہ جیتا ہوں، تمہارے بن نہ مرتا ہوں​

عجب ہی حال میرا ہے، کہاں ہو تم چلے آؤ​

بنا کر آپ کی تصویر اس سے پوچھتا ہوں میں​

ابھی کتنا ستانا ہے؟، کہاں ہو تم چلے آؤ

بلا کا شور و فغاں ہے نہاں خموشی میں

 بلا کا شور و فغاں ہے نہاں خموشی میں

میں کھل کے سامنے آیا ہوں پردہ پوشی میں

نگاہِ عدل سے دیکھیں تو میرِ محفل کے

جلال و مال معاون ہیں عیب پوشی میں

میں تن ہوں، شہ رگِ جاں کو مجھے بچانا ہے

چلا ہوں جانبِ کشمیر سرفروشی میں

لگتے ہیں پریشان در و بام سر شام

 لگتے ہیں پریشان در و بام سرِ شام

ہر سمت پڑی حسرتِ ناکام سرِ شام

اک بار اگر وصل کی صورت جو نکل آئے

ہو رقص مری جان سرِ عام سرِ شام

چپ چاپ جلاتا ہوں دیا پیار کا جس روز

ہوتا ہوں اسی روز میں بدنام سرِ شام

یاد ہے اب تک مجھے عہد جوانی یاد ہے

 یاد ہے اب تک مجھے عہد جوانی یاد ہے

دل کے بسنے اور اجڑنے کی کہانی یاد ہے

یاد ہے اب تک کسی کی مہربانی یاد ہے

عارضوں پر اپنے اشکوں کی روانی یاد ہے

بستر حرماں پہ وہ پہلو بدلنا بار بار

غم کی راتوں میں وہ قہر آسمانی یاد ہے

جب ستاروں کی ردا کاندھے سے سرکاتی ہے رات

 جب ستاروں کی ردا کاندھے سے سرکاتی ہے رات

چاند کے سینے سے لگ کر نور بن جاتی ہے رات

خود تڑپ کر کس قدر مجھ کو بھی تڑپاتی ہے رات

اشک شبنم جب مِری حالت پہ برساتی ہے رات

خون دل دے کر افق رنگین کر جاتی ہے رات

روشنی ہونے سے پہلے قتل ہو جاتی ہے رات

خود کو جینا سکھا دیا میں نے

 خود کو جینا سکھا دیا میں نے

تجھ سے اچھا نہیں کیا میں نے

پیڑ پر دو حروف لکّھے تھے

سارا جنگل جلا دیا میں نے

پردہ پوش اور پردہ دار میں فرق

تُو نے واضح کیا ہے یا میں نے

دیے کو جس طرح لازم ہے طاق چاہیے ہے

 دیے کو جس طرح لازم ہے طاق چاہیے ہے

جنوں کو دل کا گریبان چاک چاہیے ہے

میں آشنائے عذابِ فراق ہوں سو مجھے

سزا ہو یا کہ عطا، کربناک چاہیے ہے

یہ بوترابؑ کی نسبت کا ہے اثر مجھ پر

سکوں کے واسطے بس مجھ کو خاک چاہیے ہے

تمہاری شکل مرے آئنے میں پڑتی ہے

تمہاری شکل مرے آئینے میں پڑتی ہے 

یہ زندگی تو یونہی راستے میں پڑتی ہے

میں دن میں جھیلتا ہوں جون کو دسمبر میں

مگر یہ شام مجھے ملگجے میں پڑتی ہے

مِرے ہی پاؤں تلے آ گئی مِری آنکھیں 

دِیے کی لَو تو فقط طاقچے میں پڑتی ہے 

Tuesday 12 March 2024

بھر بھی سکتے ہیں مرے گھاؤ کبھی

 بھر بھی سکتے ہیں مِرے گھاؤ کبھی

تم محبت سے جو سمجھاؤ کبھی

درد سہہ کر بھی سمجھ آئے نہیں

مجھ کو گزرے وقت کے داؤ کبھی

چھوڑ دی منجدھار میں یہ سوچ کر

پار اُترے گی مِری ناؤ کبھی

نمائش حرم و جشن دیر دیکھتے ہیں

 نمائشِ حرم و جشنِ دَیر دیکھتے ہیں

عجب معاملے دورانِ سیر دیکھتے ہیں

نجانے کوئی سمے ہے وصال کا اے دوست

ہم ان دنوں تجھے دیکھے بغیر دیکھتے ہیں

دِکھا رہا ہے ہمیں دل نئے نئے صحرا

سرابِ دید کی منزل ہے، خیر دیکھتے ہیں

ہم جو بچھڑے ہیں تو آنکھوں کو بھگوتے ہی رہے

 ہم جو بچھڑے ہیں تو آنکھوں کو بھگوتے ہی رہے

موتی پلکوں پہ ہمہ وقت پروتے ہی رہے

ہم تو سوئے تھے گھنی نیند کی چادر اوڑھے

خواب کیا دیکھ لیا ایسا کہ روتے ہی رہے

یا تو وہ دے نہ سکے درد کے لمحوں کو خراج

یا نئے زخم ملے ہیں جنہیں دھوتے ہی رہے

محبت ہے وہ قلزم جس کی طغیانی نہیں جاتی

 محبت ہے وہ قلزم جس کی طغیانی نہیں جاتی

کٹی اک عمر لیکن دل کی ویرانی نہیں جاتی

بڑی مدت سے زنجیرِ فرنگی کٹ گئی لیکن

مگر ذہنوں سے اب تک اُن کی نگرانی نہیں جاتی

جو سر سجدے میں کٹے جائے محبت کے تقاضے پر

جہانِ عشق میں ضائع وہ قربانی نہیں جاتی

اب تک مجھے نہ کوئی مرا رازداں ملا

 اب تک مجھے نہ کوئی مِرا رازداں مِلا 

جو بھی مِلا اسیرِ زمان و مکاں ملا 

کیا جانے کیا سمجھ کے ہمیشہ کیا گُریز 

سو بار بجلیوں کو مِرا آشیاں ملا 

اُکتا گیا ہوں جادۂ نو کی تلاش میں 

ہر راہ میں کوئی نہ کوئی کارواں ملا 

کاگا سب سے پہلے میری دونوں آنکھیں ہی کھا لیجیو

 مشورہ


کاگا سب سے پہلے میری

دونوں آنکھیں ہی کھا لیجیو

ایسی آنکھوں کا کیا کیجیو

پی کو جو اپنے جاتا دیکھیں


تنظیم الفردوس

جہاں تنگ نظر سماج ہو جہاں لٹیروں کا راج ہو

 جہاں تنگ نظر سماج ہو 

جہاں لٹیروں کا راج ہو

جہاں غریبوں کی آہ کا 

اور نہ شہیدوں کی لاج ہو

جہاں فقیروں کی زندگی میں 

نہ عیش ہو نہ اناج ہو

سوال سوال سیاہ کشکول

 سوال سوال سیاہ کشکول


مدتوں سے

خموشی کے بے انت ورنوں کی اندھی گپھا میں

کھڑا وہ

میری پُتلیوں میں

سوالوں کا نیزہ اُتارے ہوئے پُوچھتا ہے

میں تیری تمنا میں اپنے لیے

ماضی و حال مجھے قریب سے اچھا دِکھائی دیتا ہے

 ماضی و حال

ماضی

اس وقت جب ظہیر تھا اک گبرو نوجواں

بُھولے ہوئے تھے عشق کے چکر میں ایں و آں

اُس دورِ پُر فریب کا کیا حال ہو بیاں

"تھا چار میل پر مِرے محبوب کا مکاں"

"دس میل میں چلا گیا زورِ شباب میں"

ہم اپنے شہر کے چہروں کو دیکھتے ہیں بہت

 ہم اپنے شہر کے چہروں کو دیکھتے ہیں بہت

کہ خود کو دیکھنا چاہیں تو آئینے ہیں بہت

نہ جانے کون سی منزل پہ آ گئے ہم لوگ

کہ ہاتھ پاؤں ہیں شل اور ولولے ہیں بہت

ہمارے اشک حقارت سے دیکھنے والو

کسی زمانے میں ہم لوگ بھی ہنسے ہیں بہت

لگا لیتے ہیں سینے سے اجازت کی طرح تم کو

 لگا لیتے ہیں سینے سے اجازت کی طرح تم کو

محبت کی ہے ہم نے تو محبت کی طرح تم کو

ہمیشہ ہم نے دیکھا ہے تقدس کی نگاہوں سے

ہمیشہ ہم نے سوچا ہے عبادت کی طرح تم کو

مرے سینے پہ جس لمحے کبھی روئے ہو سر رکھ کر

اسی لمحے میں پایا سخاوت کی طرح تم کو

Monday 11 March 2024

کیا کرے گا دوسروں کو جان کر

 کیا کرے گا دوسروں کو جان کر

پہلے اپنے آپ کی پہچان کر

یہ زمانہ لا ابالی کا نہیں

پھونک کر پی چھاچھ پانی چھان کر

کیوں الجھتے جا رہے ہو بار بار

دل میں آخر آئے ہو کیا ٹھان کر

گردش میں غریبوں کا ہر وقت ستارا ہے

 گردش میں غریبوں کا ہر وقت ستارا ہے

کہنے کو ہیں سب اپنے، پر کون ہمارا ہے 

تزئینِ بہاراں میں یہ خون ہمارا ہے

برباد گلستاں کو ہم نے ہی سنوارا ہے

یوں امن کی بستی میں طوفاں نہ بپا ہوتا

’’کچھ اپنوں کی سازش ہے کچھ اُن کا اشارا ہے ‘‘

آگ سینے کی بجھا لوں پانی

 آگ سینے کی بجھا لوں پانی

سرخ آنکھیں ہیں بہا لوں پانی

خرچ کم کم ہو سنبھالوں پانی

ہو سکے جتنا بچا لوں پانی

عنقا ہونے لگا ہے اب یہ بھی

سب کی نظروں سے چھپا لوں پانی

زندگی جس کی غزالی ہو گی

 زندگی جس کی غزالی ہو گی

اس کی ہر بات نرالی ہو گی

میں سمجھتا تھا خیالی ہو گی

کیا خبر تھی کہ زوالی ہو گی

اپنی آنکھوں میں بسا کر اس نے

میری تصویر بنا لی ہو گی

دھڑکنوں کی زباں میں رہتا ہوں

 دھڑکنوں کی زباں میں رہتا ہوں

ہر نئی داستاں میں رہتا ہوں

میں نے چاہا نہیں خُدا ہونا

پھر بھی کیوں لامکاں میں رہتا ہوں

چلتے رہنا مِرا مقدر ہے

وقت کے کارواں میں رہتا ہوں

نیا یہ شہر ہے لیکن کہیں کچھ بھی نہیں بدلا

 کہیں کچھ بھی نہیں بدلا


نیا یہ شہر ہے لیکن

اکیلے پن کی وحشت نے

یہاں بھی گھیر رکھا ہے

وہی الجھن پریشانی

جو پہلے تھی

سو اب بھی ہے

وقت کا مقروض مت رہ کام یہ باقی نہ رکھ

 وقت کا مقروض مت رہ کام یہ باقی نہ رکھ

تجربے دُنیا کو لوٹا، بات الحاقی نہ رکھ

مصلحت کے بِیج سے اُگتی ہے کج فہمی کی بیل

تیرے میرے درمیاں اب کوئی ناچاقی نہ رکھ

اس زمیں کے واسطے تیری سُخن گوئی ہے ٹھیک

تُو فرشتوں کے لیے اک شعر آفاقی نہ رکھ

فضائے دشت مجھے اپنے گھر سی لگتی ہے

 فضائے دشت مجھے اپنے گھر سی لگتی ہے

چٹان ریت کی دیوار و در سی لگتی ہے

تُو ڈالتا ہے مِرے سر پہ پیار سے آنچل

تو اپنی ہستی مجھے معتبر سی لگتی ہے

کچھ اس طرح مِرے گُلشن میں آگ پھیل گئی

بھرے چمن پہ کسی کی نظر سی لگتی ہے

مانا کہ بہت زیادہ گنہگار نہیں ہوں

 مانا کہ بہت زیادہ گنہ گار نہیں ہوں

لیکن تِری فردوس کا حقدار نہیں ہوں

چاہے تو مِرے دل میں کوئی شوق سے آئے

کرتا میں کسی شخص کو اصرار نہیں ہوں

کہتا میں ہر اک شعر نہیں دیکھ، پرکھ کے

لکھتا میں غزل سوچ کے ہر بار نہیں ہوں

جو پیاس پھیلی سر جسم و جاں سکون کی ہے

 جو پیاس پھیلی سرِ جسم و جاں سکون کی ہے

ہوائے شہر وگرنہ کہاں سکون کی ہے

میں اک بھنور میں پھنسا ہوں تو کیا ہوا یارو

بس ایک موج سی مجھ میں نہاں سکون کی ہے

بہار لاکھ لبھاتی رہے تِرے دل کو

مجھے خبر ہے کہ اب یہ خزاں سکون کی ہے

ثواب کا یہ قرینہ بھی آزمایا جائے

 ثواب کا یہ قرینہ بھی آزمایا جائے

کسی کے دل میں کوئی راستہ بنایا جائے

نظر میں رہنے کا سادہ سا یہ طریقہ ہے

کسی بہانے وہاں روز آیا جایا جائے

ہمارے عیب کا اظہار اس طرح سے ہو

ہمیں بتا کے کسی کو نہیں بتایا جائے

دوست سب ہو گئے اوجھل وہ پرانے اپنے

 دوست سب ہو گئے اوجھل وہ پرانے اپنے

جن کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے اپنے

ہم محبت کے علمدار، وفا کے خوگر

اب بھی گاتے ہیں وہی گیت پرانے اپنے

ہو گئے خود وہ زمانے میں فسانوں کی طرح

جو سناتے تھے ہمیں روز فسانے اپنے

Sunday 10 March 2024

کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر

 کسی تاریک اندھیرے سے اجالا لے کر

آ گیا دیس سے میں دیس نکالا لے کر

مجھ کو محفل سے نکالے گا بھلا وہ کیسے

میں تو آیا ہوں یہاں تیرا حوالہ لے کر

کسی دیوار میں بھی دیکھا نہیں دروازہ

بڑا مایوس ہوا ہاتھ میں تالا لے کر

ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل

 ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل

صبر کا پھر امتحاں ہے آج کل

ہم سے روٹھا ہے تو پھر کس سے ہے خوش

کس پہ آخر مہرباں ہے آج کل

دل بھی پژمردہ ہے آنکھیں مضمحل

یاد بس تیری جواں ہے آج کل

یہ وہ جہاں نہیں جہاں آزار ہی نہ ہو

 یہ وہ جہاں نہیں جہاں آزار ہی نہ ہو

گلزار کون ہے وہ جہاں خار ہی نہ ہو

اچھا ہے ان سے کوئی سروکار ہی نہ ہو

جن دوستوں میں جوہر ایثار ہی نہ ہو

اس بزم شب کے حشر پہ روتا ہے وقت بھی

جو انقلاب دہر سے بیدار ہی نہ ہو

اچھا ہوا جو عشق کا الزام آ گیا

 اچھا ہوا جو عشق کا الزام آ گیا

فرہاد و قیس میں مِرا بھی نام آ گیا

توبہ شکن نہیں تھا مگر رہ نہیں سکا

اے شیخ! سامنے مِرے جب جام آ گیا

دینا نہ دل کسی کو مجھے وہ سِکھا گیا

وہ بے وفا ہو کر بھی مِرے کام آ گیا

دیکھا اسے قمر مجھے اچھا نہیں لگا

 دیکھا اسے، قمر مجھے اچھا نہیں لگا

چھو کر اسے، گہر مجھے اچھا نہیں لگا

چاہا اسے تو یوں کہ نہ چاہا کسی کو پھر

کوئی بھی عمر بھر مجھے اچھا نہیں لگا

آئینہ دل کا توڑ کے کہتا ہے سنگ زن

دل تیرا توڑ کر مجھے اچھا نہیں لگا

کہیں آزاد ہوتی ہے کہیں زنجیر ہوتی ہے

 کہیں آزاد ہوتی ہے کہیں زنجیر ہوتی ہے

میاں اس عشق کی کچھ ایسی ہی تاثیر ہوتی ہے

اگر موقع ملا تو خود خدا سے پوچھ لوں گا میں

کہ کیوں میرے ہی جیسوں کی بُری تقدیر ہوتی ہے

مِری جیبیوں میں گر اک پیسہ بھی ہوتا نہیں،لیکن

مِرے بٹوے میں برسوں سے تِری تصویر ہوتی ہے

Saturday 9 March 2024

تصور کا سودا پاؤں پاؤں سسکتی ہوئی زمین

 تصور کا سودا


پاؤں پاؤں سسکتی ہوئی زمین 

سائیں سائیں سِمٹتا یہ جہان

دھوپ کی چادر ہاتھوں میں اٹھائے لوگ 

تڑپ رہے ہیں نجات کے لۓ 

نجات بلاؤں سے 

آسمانی بلائیں 

خوش ہو جاتا ہوں کہ شاید تیرا ہے

 خوش ہو جاتا ہوں کہ شاید تیرا ہے

نئے نمبر سے جب بھی میسج آتا ہے

اب تم اتنی امیدیں کیوں رکھتے ہو

ہر اک بال پہ چھکا تھوڑی ہوتا ہے

پہلی بار میں دل دے جانے والے سُن

اچھی چیزیں کون کسی کو دیتا ہے

تجھے چھو کر بھی مری روح میں شدت نہیں ہے

 تجھے چُھو کر بھی مِری روح میں شدت نہیں ہے

دل لگی سی ہے یہ دراصل محبت نہیں ہے

اپنے اندر ہی گُھٹا رہنے لگا ہوں اب تو

تیرے غم میں ابھی رونے کی نزاکت نہیں ہے

میرے جذبوں میں مِری روح کی پاکیزگی ہے

جو بھی لکھتا ہوں مجھے اس کی ملامت نہیں ہے

محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفی

 محبت میں وفاؤں کا یہی انعام ہے صوفی

لیے داغ جدائی حسرت ناکام ہے صوفی

اگر الزام ہے کوئی تو یہ الزام ہے صوفی

کہ تو اپنی شرافت کے لیے بدنام ہے صوفی

ہمیں ہر دور میں تھے گردش ایام کے مارے

مگر ہم سے علاج گردش ایام ہے صوفی

شگوفے آرزو کے پھوٹتے ہیں

 شگوفے آرزو کے پُھوٹتے ہیں

حسیں جب بن سنور کر گھُومتے ہیں

لبوں کی نازکی پُھولوں سے بڑھ کر

گُلابی گال اب دل لُوٹتے ہیں

تیرے نوخیز جوبن کی ہوا سے

مِرے قلب و نظر سب جُھومتے ہیں

ڈرائے گی ہمیں اب کیا یہ انتہائے نصاب

 ڈرائے گی ہمیں اب کیا یہ انتہائے نصاب

بہت کٹھن تھا ہمارا تو ابتدائے نصاب

میں جانتی ہوں میرا قتل عین واجب ہے

کہ پڑھ رہی ہوں سرِ عام ماورائے نصاب

محبتوں کی کہانی کہاں سے دہرائیں؟

کہ نقش دل پہ وہی ہو جسے مِٹائے نصاب

حریم ناز مرا کعبہ اور حرم ترا غم

 حریمِ ناز مِرا کعبہ اور حرم، تِرا غم

کسی حصار سے مجھ کو نہیں ہے کم ، ترا غم 

بس اس نشانی سے پہچانتے ہیں لوگ مجھے

کہ میرے چہرے پہ ہے جا بجا رقم، ترا غم

کہ کارِعشق میں حاصل ہوا ہے کیا مجھ کو

کوئی جو پوچھے تو رکھ لیتا ہے بھرم، ترا غم

پناہ مانگنے خانہ خراب آئے گا

 پناہ مانگنے خانہ خراب آئے گا

میری زمین پر وہ آفتاب آئے گا

نوشتہ میرے مقدر کا ڈھونڈتے پھرتے

کہیں نہ جائے گا ، میری جناب آئے گا

مجھے سنبھال کے رکھنا کہ قیمتی شئے ہوں

میں ٹُوٹ جاؤں تو اک انقلاب آئے گا

فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں

 فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں

یہی خیال ہے جی میں کہ گھر نہ جاؤں میں

بدن کے تپتے جہنم میں خواہشوں کا سفر

اسی سفر کے بھنور میں اتر نہ جاؤں میں

ہوئی تمام مسافت اس ایک خواہش میں

کہ اب وہ لاکھ بلائے مگر نہ جاؤں میں

اے عمر رواں گرمئ رفتار کہاں تک

 اے عمرِ رواں گرمئ رفتار کہاں تک

گردِش میں رہیں صورتِ پرکار کہاں تک

پیوندِ جُنوں زینتِ پوشاکِ خِرد ہو

دامن تِرے یوسف کا رہے تار کہاں تک

دریا کو مِلیں بھینٹ میں شہزادیاں لیکن

بدلے میں ہمیں وادئ پُر خار کہاں تک

Friday 8 March 2024

ہم راہ میں کھڑ ے تھے پتھر کے دیس میں

 ہم راہ میں کھڑ ے تھے پتھر کے دیس میں

شیشے کے بُت پڑے تھے پتھر کے دیس میں

چل چل کے ساتھ اپنے راہیں بھی رو پڑیں

ہم در بدر پھرے تھے پتھر کے دیس میں

پنچھی کے کتر دئیے دُنیا نے؛ "اُڑ" کہا

بے پر پرندے اُڑے تھے پتھر کے دیس میں

شکایت کر رہا ہے دل خدا سے

 شکایت کر رہا ہے دل خدا سے 

یہی تو کام اپنا ہے سدا سے 

اسے پہچان کر پھر بھول جانا 

جسے تو مانگتا ہے انتہا سے 

کہیں پر بیچ کی دیوار بن جا

مجھے ڈر لگ رہا ہے انخلا سے 

رنگ بیاں بدل گیا طرز فغاں کو کیا ہوا

 رنگِ بیاں بدل گیا، طرزِ فغاں کو کیا ہُوا

رونقِ بزم ہے وہی میرے جہاں کو کیا ہوا

ابرِ بہار چل دیا، اب نہ کوئی کھنک نہ شور

رِند کہاں چلے گئے، پیرِ مغاں کو کیا ہوا

وہ جو تمہاری بزم سے اُٹھ گئے ان کا ذکر کیا

وہ جو وہیں کے ہو رہے اُن کے نشاں کو کیا ہوا

فرشتوں جیسے دنیا میں بشر جلدی نہیں آتے

 فرشتوں جیسے دنیا میں بشر جلدی نہیں آتے

کہ سچائی کے حامی بھی نظر جلدی نہیں آتے

تلاش رزق میں کچھ اس قدر مصروف رہتا ہوں

مری بچی یہ کہتی ہے کہ گھر جلدی نہیں آتے

نہ غم کا غم ہے مجھ کو اب نہ خوشیوں کی خوشی مجھ کو

اب آنکھوں میں بھی اشکوں کے گہر جلدی نہیں آتے

سرشت حسن کا جلوہ دکھائے دیتا ہے

 سرشتِ حسن کا جلوہ دکھائے دیتا ہے

بھنور کے بیچ بچھڑنے کی رائے دیتا ہے

تری ہنسی میں وہ سحرِ غنائے مطرب ہے

مری فغاں کو جو نغمہ بنائے دیتا ہے

کمالِ معرفتِ عشق کی بلندی پر

یہ کون پردۂ غیبت اٹھائے دیتا ہے

کس نے کیا پا لیا محبت میں

 کس نے کیا پا لیا محبت میں

دھوکہ خود کھا لیا محبت میں

جب بھی دیکھی ہے بڑھتے بے چینی

دل کو سمجھا لیا محبت میں

تجھ سے آگے نظر نہ کچھ آئے

حد تجھے بنا لیا، محبت میں

Thursday 7 March 2024

دل ہماری طرف سے صاف کرو

 دل ہماری طرف سے صاف کرو 

جو ہُوا سو ہُوا معاف کرو 

مجھ سے کہتی ہے اس کی شانِ کرم 

تم گُناہوں کا اعتراف کرو 

حُسن ان کو یہ رائے دیتا ہے 

کام اُمید کے خلاف کرو 

خوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا

 خُوشبو رہی چمن میں نہ وہ رنگ رہ گیا

تُربت یہ گُل کی، خار کا سرہنگ رہ گیا

ہو لب پہ رام رام، بغل میں چُھری رہے

جینے کا اس جہاں میں یہی ڈھنگ رہ گیا

ہر سنگ بھاری ہوتا ہے اپنے مقام پر

انساں خلا میں پہنچا تو پا سنگ رہ گیا

سفید بنیا قرض دے کر چھین لیتا ہے روح آزادی

 سفید بنیا


قرض دے کر غریب ملکوں کو

چھین لیتا ہے روحِ آزادی

آج زیرِ عتاب ہے اس کے

ہر بڑا شہر، ہر حسیں وادی

مُدتوں سر اُٹھا کے چل نہ سکا

اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا

ہم ایسے نقیبوں کی حمایت نہیں کرتے

 ہم ایسے نقیبوں کی حمایت نہیں کرتے

حق بات جو کہنے کی جسارت نہیں کرتے

تنہائی شب میں بھی جو ہیں محوِ ریاضت

وہ لو گ دکھاوے کی عبادت نہیں کرتے

محفوظ کیا رہ پائے گا محلوں کا تقدّس

جو اپنے اساسوں کی حفاظت نہیں کرتے

کئی خیال بہت وسوسے ستاتے ہیں

 کئی خیال، بہت وسوسے ستاتے ہیں

نہ آئے کال جب ان کی ، تو ہم ملاتے ہیں

کوئی بھی مونس و دمسازہے کہاں میرا؟

یہ لوگ وہ ہیں جو ملنے کو روز آتے ہیں

تو کیا ہُوا جو میرے لب پہ ایک نام آیا

جو ہم کو مِل نہیں پاتے، وہ یاد آتے ہیں

شہر وفا میں حشر کا سامان دیکھنا

 شہر وفا میں حشر کا سامان دیکھنا

اور یوں کِتابِ عشق کا عُنوان دیکھنا

گر خاک نشیں صاحبِ سالار ہو گئے

اُٹھے گا اُسی خاک سے طُوفان دیکھنا

جس آگ کے حِصار میں محکومِ وقت ہیں

پِگھلے گا اُسی آگ سے زِندان دیکھنا

جب یتیموں کی عید ہوتی ہے

 والد


جب یتیموں کی عید ہوتی ہے

ساتھ ان کے بھی عید روتی ہے

قبر پہ باپ کی وہ جاتے ہیں

عید رو کر وہاں مناتے ہیں

عرش والے نے کیا ستم ڈھایا

ماں ہے سر پہ نہ باپ کا سایہ

ڈھونڈو اس کو جسے نے تم بھلا دیا ہے

 پرندے سارے گھونسلوں میں چھپ گئے ہیں

پربتوں نے سفید چادر

اوڑھ لی ہے

میرے غم میں شریک ہیں سب

سکوت چھایا ہوا ہے ہر سو

تمہارے عہد و پیمان سارے

ستم تو یہ ہے کہ جن کے لیے اٹھائے عذاب

 ستم تو یہ ہے کہ جن کے لیے اٹھائے عذاب 

اٹھا کے جھولیاں دیتے ہیں بد دُعائے عذاب

ہمارے خواب ہمیشہ ہرے بھرے تھے مگر

ملا نہیں ہے ہمیں کچھ بھی ما سوائے عذاب 

یہ زندگی کی دعا تھی کہ بد دعا تھی کوئی 

برائے عشق گزاری ہے مبتلائے عذاب  

Wednesday 6 March 2024

آ تجھ کو میں بتاؤں کہ روح کی غذا ہے کیا

 مخملی غلاف میں

ریشمی لباس میں

سانچے ہیں جو خاک کے

یہ پربتوں میں ره چکے

گیت سبھی یہ کہہ چکے

مُٹھی بھر سکون سے

کیا رہا اے زندگی شام و سحر کوئی نہیں

 کیا رہا اے زندگی شام و سحر کوئی نہیں

منزلوں کی داد کیا دیں ہم سفر کوئی نہیں

بے ثباتی آ گئی دیوار دل کو پھاند کر

مرنے والے مر گئے ہیں نوحہ گر کوئی نہیں

کشتیوں کو چھوڑ کر ہم نے لیا اگلا قدم

کاروان میر کی لیکن خبر کوئی نہیں

تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے

 تار کی جھنکار ہی سے بزم تھرا جائے ہے 

گاہے گاہے ساز ہستی یوں بھی چھیڑا جائے ہے 

قافلہ چُھوٹے زمانہ ہو گیا لیکن ہنوز 

یاد آواز جرس رہ رہ کے تڑپا جائے ہے 

خود زمانہ رُخ ہمارا دیکھتا ہے ہم نہیں 

جس طرف مُڑتے ہیں ہم دھارا بھی مُڑتا جائے ہے 

سمٹ جاتا کیسے اور پھر کیسے بکھرتا تھا

 سمٹ جاتا کیسے اور پھر کیسے بکھرتا تھا

ہماری زندگی میں کوئی کیسے رنگ بھرتا تھا

سمجھ رکھا ہے جس نے پانیوں کو اپنی ملکیت

کبھی آ کر مِرے دریاؤں سے اپنے مشکیزے بھرتا تھا

تیرا یہ دل ہی میرے واسطے پہلی پناہ گاہ ہے

میں ورنہ کب کسی کے آئینوں میں یوں سنورتا تھا

دکھ کے عالم میں بھی خاموشی سے جینے والے

 دکھ کے عالم میں بھی خاموشی سے جینے والے 

ایسے ملتے ہیں کہاں لوگ قرینے والے

باقی سب زخم تو بھر جاتے ہیں رفتہ رفتہ 

مجھ کو بے چین رکھیں زخم یہ سینے والے

اپنی چاہت کے بہت جام پلائے تھے جنہیں 

یار میرے وہی نکلے یہاں، کینے والے

من کی آنکھیں ابھی ترستی ہے

 یوں نہ جاؤ


یوں نہ جاؤ سجل گھٹ کی طرح

من کی آنکھیں ابھی ترستی ہے

کھڑکیاں، تیرے گھر کی دیواریں

ساتھ میرے کھڑی سِسکتی ہے

دیکھ کے لپٹ کے قدموں سے

لان کی پتیاں لرزتی ہیں

عمر کٹ جائے گی اپنی تو یہ حاجت کرتے

 عمر کٹ جائے گی اپنی تو یہ حاجت کرتے

تجھ کو چائے پہ بلاتے تِری دعوت کرتے

ان کو گر ایک نظر دیکھ لیا جاتا تو

وہ ہمارے ہی قبیلے کی حمایت کرتے

تم نے ہی ہاتھ بڑھایا تھا ہماری جانب

ورنہ ہم آنکھ مِلانے کی نہ جرأت کرتے

یہ سارے غم بکھر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو

 یہ سارے غم بکھر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو

کہ پھر سے ہم سنور جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو

یہ بے کیفی، اداسی، بے سکونی اور بے چینی

یہ سب موسم گزر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو

جلن محسوس ہوتی ہے ابھی تک جن میں رہ رہ کر

وہ سارے زخم بھر جائیں اگر تم لوٹ آؤ تو

برسوں سے ہم سنتے تھے کہ عید خوشی کو کہتے ہیں

 وطن سے دور کی عید


برسوں سے ہم سنتے تھے

کہ عید خُوشی کو کہتے ہیں

وہ لوگ بھی کیا خُوش ہوتے ہیں

جو دُور وطن سے رہتے ہیں

وہ شہر نہیں، جذبات نہیں

وہ دوست نہیں، وہ سات نہیں

پھولوں کو شرمسار کسی نے نہیں کیا

 پھولوں کو شرمسار کسی نے نہیں کیا

کانٹوں کو جھک کے پیار کسی نے نہیں کیا

یوں تو گلا خزاں کا سبھوں نے کیا مگر

شکرانۂ بہار کسی نے نہیں کیا

بنیاد عشق مصلحت آمیز ہو گئی

ملبوس تار تار کسی نے نہیں کیا

Tuesday 5 March 2024

اتنا ہی تو ہوا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

 اتنا ہی تو ہُوا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

خُود کو بُھلا دیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

آنکھوں کو ان کا گوہر مقصود مِل گیا

ہاتھوں سے دل گیا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

دیکھا تجھے تو کاٹ لیں ہاتھوں کی اُنگلیاں

کچھ ہوش کب رہا ہے تجھے دیکھنے کے بعد

جسے ہم شیخ سمجھے تھے

 جسے ہم شیخ سمجھے تھے

وہ کافر کا ہے آلہ کار

جسے ملاح جانا تھا

وہ ابلیسی سے محو کار

جو واعظ تھا

وہ دستور عمل پہ آپ تھا بیزار

عشق والوں کو سہارا کچھ نہیں

 عشق والوں کو سہارا کچھ نہیں

بہتے دریا کو کنارا کچھ نہیں

تُو کیوں آیا ہے رقیبا جان کو

ہم نے تیرا تو بگاڑا کچھ نہیں

مصائبوں پہ تم تو بس نوحہ کیے

تم نے دنیا کو سنوارا کچھ نہیں

دل تو ویران ہے ویران بھی ایسا ویسا

 دل تو ویران ہے ویران بھی ایسا ویسا

اُن کا احسان ہے احسان بھی ایسا ویسا

عشق کی آخری منزل پہ کھڑے ہم دونوں

اب بچھڑنے کا ہے امکان بھی ایسا ویسا

ہم بھی ہوں صاحبِ دیوان یہی خواہش ہے

اِک ہی دیوان ہو دیوان بھی ایسا ویسا

ویسے تو ترے حسن کے میخوار بہت ہیں

 ویسے تو تِرے حسن کے میخوار بہت ہیں

پر مجھ سے کہاں صاحبِ اسرار بہت ہیں

ہر عشق تو اب اتنا مفصل نہیں ہوتا

بس میرے فسانے میں ہی کردار بہت ہیں

دریا بھی سمندر بھی ہیں اس عالمِ غم میں

جیسا کہ یہاں جنگل و کہسار بہت ہیں

لمحوں کی نیلامی ہوش کی بات کر ساقی

 لمحوں کی نیلامی


ہاتھوں میں جام

اور ہوش کی بات کریں

ارے کچھ تو

ہوش کی بات کر ساقی


پیمانہ بھی نہ چھلکے

اور سرور چڑھے

شاعر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈنا چاہیں

 زعفرانی کلام


شاعر کو اگر آپ کبھی ڈھونڈنا چاہیں

وہ پچھلے پہر فکر کی دلدل میں ملے گا

اور صبح کو آئینہ لیے سامنے اپنے

اشعار تغزل کے ریہرسل میں ملے گا

دن کو وہ جگر گوشۂ بیکاری و افلاس

بستر پہ خیالات کے جنگل میں ملے گا

آج رسوا ہیں تو ہم کوچہ و بازار بہت

 آج رُسوا ہیں تو ہم کُوچہ و بازار بہت

یا کبھی گیت بھی گاتے تھے سر دار بہت

اپنے حالات کو سُلجھاؤ تو کچھ بات بنے

مل بھی جائیں گے کبھی گیسوئے خمدار بہت

دل کے زخموں کو بھی ممکن ہو تو دیکھو ورنہ

چاند سے چہرے بہت پُھول سے رُخسار بہت

سنو جاناں غم دنیا کی کثرت ہے یہاں پر

 سنو جاناں غم دنیا کی کثرت ہے یہاں پر

تمہیں میری مجھے تیری ضرورت ہے یہاں پر

ہمارے دل میں رہ سکتی ہو شہزادی کی صورت

ازل سے حسن والوں کی حکومت ہے یہاں پر

وہاں تم شہر کی گلیوں میں نیندوں کو سمیٹو

مِرا ہر خواب زندہ ہے سلامت ہے یہاں پر

ہے شام بھی یہ آخری دل بھی دکھا ہوا

 ہے شام بھی یہ آخری دل بھی دُکھا ہُوا

غم بھی گِھسا پِٹا ہے، سُنایا سُنا ہوا

اس عشق وِشق میں نہیں کچھ بھی رکھا ہوا

سمجھاؤں گا جو مجھ سے مِرا رابطہ ہوا

صحرا کی خاک چھاننے نکلے تو کس طرح

گھر کے معاملات میں عاشق پھنسا ہوا

Monday 4 March 2024

نازش علم و ہنر تیری فضاؤں کو سلام

 نازشِ علم و ہنر تیری فضاؤں کو سلام

تیرے لطفِ خاص، تیری اداؤں کو سلام

درس گاہِ قوم و ملت اے محبت کے شجر

تیری پرچھائیں سے چمکے کتنے ہی شمس و قمر

علم گاہ نامیہ کس درجہ رخشندہ ہے تو

حال اور ماضی کا سنگم، خواب آئندہ ہے تو

موسم ہجر ہے وحشت ہے رسوائی ہے

 موسم ہجر ہے وحشت ہے رُسوائی ہے

پھر تِری یاد ہے، شام ہے، تنہائی ہے

اک آفتابِ محبت پہ ابر آیا ہے

وصل کی شب ہے سحر کی انگڑائی ہے

دل شکستہ ہے کوچۂ جاناں میں مقید

ہے یہ محبت کا جنوں یا پسپائی ہے؟

چشم عشاق میں نمناکئ وحشت رہ جائے

 چشمِ عشاق میں نمناکئ وحشت رہ جائے

جاں چلی جائے مگر عشق سے نسبت رہ جائے

خوابِ آوارہ کی تکمیل تو ہو گی لیکن

کہیں ایسا نہ ہو پھر وا درِ ہجرت رہ جائے

ہم سے سرزد ہو اچانک کوئی ایسی غلطی

لڑکھڑا جائیں قدم تھوڑی مسافت رہ جائے

ہزاروں تہمتیں دھر لو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا

 ہزاروں تہمتیں دھر لو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا

جو کہنا ہے تم ہی کہہ دو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا

ہماری خامشی کو اپنے مطلب کے معانی دو

بھلے انجام کچھ بھی ہو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا

زمانے کی کہانی میں کئی پنے ہیں، جن بابت

نہیں سننا ہے کچھ تم کو، ہمیں کچھ بھی نہیں کہنا

عام تو نہیں ہوتا مرحلہ محبت کا

 زعفرانی کلام


عام تو نہیں ہوتا مرحلہ محبت کا

کر لیا یے کیسے پھر فیصلہ محبت کا

ہر طرف بپا ہے آج شور اس کے آنے کا

ہھر سے جُڑنے والا یے سلسلہ محبت کا

اک بہو کے آنے سے انقلاب آیا ہے

بٹ گیا ہے بیٹے کا دائرہ محبت کا

جب میں اس کی گلی سے آیا تھا

 زعفرانی غزل


جب میں اس کی گلی سے آیا تھا

مجھ کو کتے نے کاٹ کھایا تھا

کیسے قاضی سے ہو گلہ شکوہ

آشیاں خود ہی جب جلایا تھا

رات بیگم نے کہہ دیا؛ گھامڑ

زیرِ لب میں بھی مسکرایا تھا

پن کھلا ٹائی کھلی بکلس کھلے کالر کھلا

 زعفرانی غزل


پن کھلا، ٹائی کھُلی، بکلس کھُلے، کالر کھُلا 

کھُلتے کھُلتے ڈیڑھ گھنٹے میں کہیں افسر کھُلا

آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی، آٹھ دس کا سر کھُلا 

تو خطیب شہر کی تقریر کا جوہر کھُلا 

سچ ہے مغرب اور مشرق ایک ہو سکتے نہیں

اس طرف بیوی کھُلی ہے اس طرف شوہر کھُلا 

بیٹھے بٹھائے اک دن بس لے لیا تھا پنگا

 طنزیہ نمکین زعفرانی کلام


بیٹھے بٹھائے اک دن بس لے لیا تھا پنگا

گنجے سے مانگا کنگا پھر تھا ذرا میں کھنگا

اب تو اکیلے ہی وہ ہے برتھ ڈے منائے

تحفے میں اس کو سب ہی دیتے ہیں جب سے کنگا

نیکر پہن لو سر پہ،۔ گر پاس ہو نہ ٹوپی

پِھرتے ہو عورتوں میں سر لے کے اپنا ننگا

ہوں منسٹر مستند ہے میرا فرمایا ہوا

 زعفرانی غزل

منکہ ایک منسٹر ہوں


مرغیوں پر بھی کر سکتا ہوں اظہارِ خیال

اورسانڈوں پر بھی ہوں محفل میں سرگرمِ مقال

ریس کے گھوڑوں پہ بھی تقریر کر سکتا ہوں میں

اکبر و اقبال کی تفسیر کر سکتا ہوں میں

ہومیوپیتھک ہو یا دندان سازی کا کمال

باغبانی ہو کہ ہو رومی و رازی کا کمال

Sunday 3 March 2024

کوفہ کا لوہار میں کوفہ کی بستی کا ادنیٰ لوہار

 کوفہ کا لوہار


میں کوفہ کی بستی کا ادنیٰ لوہار

بہت محنتی کم عبادت گزار

بناتا جو تلوار و تیر و سناں

بہت داد دیتا تھا مجھ کو جہاں

بناتا تھا میں ایسے تیر و تبر 

بس اک ضرب میں ڈھیر ہوتا بشر 

وہ جو دن رات یوں بھٹکتا ہے

 وہ جو دن رات یوں بھٹکتا ہے

جانے کس کی تلاش کرتا ہے

دل بھی اس کا ہے جگنوؤں جیسا

شام کے وقت جلتا بجھتا ہے

سامنے بیٹھا ہے مگر پھر بھی

لب ہے خاموش، کچھ نہ کہتا ہے

مرا من جو پھولوں کی طرح کھلا ہے

 میرا والد (اپنے والدِ محترم کے لیے ہدیۂ عقیدت)


مِرا من جو پُھولوں کی طرح کِھلا ہے

مجھے یہ مِرے باپ سے ہی مِلا ہے

لحد میں بھی سُنتا ہے میری فُغاں کو

مِرا باپ اب بھی مِری مانتا ہے

مجھے مُشکلوں میں یہی لگ رہا ہے

کہ اب بھی وہ میرا ہی مُشکل کشا ہے

گر جو ممکن ہو تو اتنا تو گوارا کیجیے

 گر جو ممکن ہو تو اتنا تو گوارا کیجیے

بہت رہ لیے اپنے اب خود کو ہمارا کیجیے

کہو تو جاں کی بازی بھی لگا ڈالیں ہم

پیار سے اک بار ذرا ہم کو اشارہ کیجیے

نظر التفات پڑ گئی تھی اک بار جو غلطی سے

گزارش ہے وہی غلطی دوبارہ کیجیے

تمہارا کچھ نہیں بگڑا ابھی سوتے رہو بھائی

 ابھی سوتے رہو بھائی

ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟

ابھی بے روزگاری نے

تمہارے در پہ دستک بھی نہیں دی ہے

تمہارے بچے کی بوتل میں ابھی تک دودھ باقی ہے

تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے

تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے

آ اے خیال پھر مری آنکھوں کو خواب دے

 آ اے خیال پھر مِری آنکھوں کو خواب دے

جس پر سکوں نثار ہو، وہ اضطراب دے

میں تجھ کو کچھ نہ کہہ کے پشیمان تو نہیں

صُورت نہ پڑھ سکے جو اسے کیا کتاب دے

خاموشیوں کی تہہ میں سمندر ہے موجزن

اللہ! وسعتوں کو مِری کچھ حجاب دے

ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں

 ہوا کے ہاتھوں کی مہربانی سے ڈر گئے ہیں

یہ پھول خوشبو کی رائیگانی سے ڈر گئے ہیں

ہمیں بھی رخصت کی رسم کچھ تو نباہنا تھی

تمہاری آنکھوں میں آئے پانی سے ڈر گئے ہیں

یہ تیر جتنے فضا میں آ کر ٹھہر گئے ہیں

کسی پرندے کی بے زبانی سے ڈر گئے ہیں

طلب شفا کا تم کو سلیقہ نہیں کوئی

 طلبِ شفا کا تم کو سلیقہ نہیں کوئی

دیوارِ گِریہ ہے یہ مسیحا نہیں کوئی 

رستے کے انتخاب میں دونوں اسیر ہیں

گاڑی کے ایک بیل کی منشا نہیں کوئی

تنہائیوں کا بھوت ہمیشہ ہے ساتھ ساتھ

یعنی کہ اس جہان میں تنہا نہیں کوئی

ضروری کام تھا کرنا بہت ضروری تھا

 ضروری کام تھا، کرنا بہت ضروری تھا

کسی کے دل میں اُترنا بہت ضروری تھا

لُبِ لُباب کہانی کا تھا مِرا کردار

پر اُس کہانی میں مرنا بہت ضروری تھا

وگرنہ، سیلِ رواں کاٹ کھاتا اندر سے

بدن میں آنکھ کا جھرنا بہت ضروری تھا

چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا

 چُھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا

مِلے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا

چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر، بتاؤ مجھے

ان آنسوؤں نے مِری آبرو بچا لی کیا؟

یہ دھڑکنیں ہیں علامت، چُھپا ہوا تو نہیں

نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا

مغرب اور مشرق دونوں اک جیسے کی ضد ہوں جیسے

 مغرب سے  مشرق تک


مغرب اور مشرق دونوں

اک جیسے کی ضد ہوں جیسے

ان ملکوں میں سرحدیں تو ہوتی ہیں 

پر آنے جانے کی دشواری کب ہوتی ہے

اور اک ہم یہ مشرق والے

جہاں جہاں سرحد آتی ہے 

جو میرا ہوتا تھا پہلے اب اس کا ہو رہا ہے

 جو میرا ہوتا تھا پہلے اب اُس کا ہو رہا ہے

مجھے سمجھا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے

تیرے جانے نے دُنیاؤں کی ترتیبیں اُلٹ دیں

میرا جو زخم بھرنا تھا، وہ گہرا ہو رہا ہے

سمندر میں اُداسی کس طرف سے آ رہی ہے

یہ اتنا تھا نہیں اب جتنا گہرا ہو رہا ہے

سو جائیے حضور کہ اب رات ہو گئی

 سو جائیے حضور کہ اب رات ہو گئی

جو بات ہونے والی تھی وہ بات ہو گئی

اب کہنے سننے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا

بس اتنا کافی ہے کہ ملاقات ہو گئی

تھوڑی سی دیر اس میں ہوئی تو ضرور ہے

لیکن قبول اپنی مناجات ہو گئی

تیرے ظلم و جور کا روشن نشاں رہنے دیا

 تیرے ظلم و جور کا روشن نشاں رہنے دیا 

آفتابِ داغِ دل اے آسماں، رہنے دیا 

ذبح ہونے کی تمنّا کھینچ لائی تھی مجھے 

یہ قیامت کی کہ میرا امتحاں رہنے دیا 

دل کی بیتابی کا قصہ خط میں ان کو لکھ دیا 

صرف حالات شبِ غم کا بیاں رہنے دیا 

ہم سے وطن کی آن ہے عظمت ہے دوستو

 ہم سے وطن کی آن ہے


ہم سے وطن کی آن ہے، عظمت ہے دوستو

ان بازوؤں میں قوم کی طاقت ہے دوستو


ہم سر زمینِ پاک کی حُرمت کے آفتاب

ہم گُلشنِ وطن کے مہکتے ہوئے گُلاب

ہر سانس روشنی کی علامت ہے دوستو

ہم سے وطن کی آن ہے، عظمت ہے دوستو

Saturday 2 March 2024

زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں

 زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں


زندگی ریل کا اک سفر تو نہیں اک ڈگر پر مسلسل روان

اک سٹیشن پر کچھ چاہنے والوں سے 

مختصر سی ملاقات کے بعد پھر چل پڑے

آنکھ میں پل کوئی بھی ٹھہرتا نہیں 

تیز رفتار ہیں بھاگتے دوڑتے سب مناظر یہاں

پھر صدا آ رہی ہے

کھوٹ نیت میں رہا اور سر کو خم کرتے رہے

 باطل و نا حق سے امید کرم کرتے رہے 

جو نہ کرنا تھا ہمیں وہ کام ہم کرتے رہے 

ضبط کر سکتے تھے آخر ضبط ہم کرتے رہے 

کام تھا جن کا ستم کرنا، ستم کرتے رہے 

زندگی بھر مسکرائے بے سبب ہم دوستو 

زندگی بھر زیست کی تلخی کو کم کرتے رہے 

سرسوں کے کھیتوں پر سوروں کی یلغار جاری ہے

 پرونیٹ؛ ۔۔۔۔ بریکنگ نیوز


سرسوں کے کھیتوں پر سوروں کی یلغار جاری ہے

کچی شراب پینے والوں کے بچنے کا کوئی امکان نہیں 

ہر نسخہ کیمیا کسی نئے نسخہ کی تیاری ہے

کھیتوں کی بربادی پر کسی کا بھی دھیان نہیں 

رات کے پاس بارود اور بیان کا ذخیرہ ہے

روشنی کے بنک میں کچھ پھول ہیں اور خاموشی ہے

ترقی کے اس طوفان میں انسان چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں

 عالمی زوال کا علاج


ترقی کے اس طوفان میں 

عمارتیں اونچی اور انسان

چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں

ترقی اس طوفان میں نام بڑے

ویرانی کا پتہ پوچھ رہے ہیں

ترقی کے اس طوفان میں 

ماہل اور ملوانی گنگا پربت کی بیٹی ملوانی نیلی فام

 ماہل اور ملوانی


گنگا پربت کی بیٹی، ملوانی نیلی فام

سنکھ پہاڑ کا اک شہزادہ ماہل تھا جس کا نام

تولی بابا نے دِکھلائی راہ جنوں کی جن کو

کنٹھی بی بی نے مِلوایا دونوں کو اک شام

دونوں کے اندر بھڑکی پھر عشق کی ایسی آگ

اور پھر اک دن دونوں نکلے پینے عشق کا جام

رات کٹ جائے گى سرکار یقیں ہے ہم کو

 رات کٹ جائے گى سرکار یقیں ہے ہم کو

پهر سحر ہو گى نمودار، یقیں ہے ہم کو

دل میں نفرت کى جو دیوار اُٹھائی اُس نے

ہم گِرا دیں گے وہ دیوار، یقیں ہے ہم کو

رنج مِٹ جائیں گے خوشیوں کا سماں لوٹے گا

پهر زمیں ہو گى یہ گُلزار، یقیں ہے ہم کو

نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے

 نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے

وہ بھی جُھلس گئے ہیں حوادث کی دُھوپ سے

ہمراہ اجنبی کے بہت دور تک گیا

چہرہ تھا ملتا جلتا ذرا ان کے رُوپ سے

کیسی ہوا یہ آئی گُلستاں سے گرم گرم

کیا پُھول شعلے بن گئے ساون کی دُھوپ سے

آکسیجن بھی ہچکی بھرنے لگتی ہے

 آکسیجن بھی ہچکی بھرنے لگتی ہے

جب اک پیڑ پہ آری چلنے لگتی ہے

موٹر وے ہو یا پگڈنڈی، دیکھ کے چل

دُھند میں اکثر سمت بدلنے لگتی ہے

تیرے ہجر کا اندیشہ ایسے جیسے

پٹڑی پر سے ریل اُترنے لگتی ہے

یہ مرا ظرف کہ کم ظرف کو مشہور کیا

 یہ مِرا ظرف کہ کم ظرف کو مشہور کیا

تُو نے اے دل مجھے کس کام پہ مامور کیا

مجھ پہ جب راز کُھلا پارسائی کا اس کی

میں نے پھر اپنی نگاہوں سے اسے دُور کیا

میں نے ہر محفلِ اشعار کو بخشی توصیف

اس نے ہر محفلِ اشعار کو بے نُور کیا

تیری چاہت کا ابھی دل پہ اثر لگتا ہے

تیری چاہت کا ابھی دل پہ اثر لگتا ہے

لب تِرے سامنے کھولیں، ہمیں ڈر لگتا ہے

ان کی یادوں کو بُھلایا نہیں دل نے اب تک

تازہ تازہ ابھی ہر زخمِ جگر لگتا ہے

ہر گھڑی گرمئ الفت سے ہے سینہ لبریز

دل میں کوئی تو محبت کا شرر لگتا ہے

Friday 1 March 2024

سنا ہے کہ بہار آ گئى ہے

 سنا ہے کہ بہار آ گئى ہے

رات نے نوزائیدہ شگُوفوں کے منہ میں

شبنم کى گُھٹى ڈال دى ہے

بہار جوان کلیوں کے ہونٹوں پر

جیون رس ٹپکانے لگى ہے

درخت سُرخ و گُلابى اور عنابى ہوئے جاتے ہیں

حسرت سے ہم بہ دیدۂ نم دیکھتے رہے

 حسرت سے ہم بہ دیدۂ نم دیکھتے رہے

روکے نہ اس نے بڑھتے قدم دیکھتے رہے

لفظوں میں حُسنِ یار سمیٹوں تو کس طرح

حیرت سے مجھ کو لوح و قلم دیکھتے رہے

میرے علاوہ سب کی طرف دیکھتا تھا وہ

محفل میں شوق سے جسے ہم دیکھتے رہے

جو مسند دل پر ہو نشیں ڈھونڈ رہے ہیں

 جو مسندِ دل پر ہو نشیں، ڈھونڈ رہے ہیں

دنیا میں کوئی ایسا حسیں ڈھونڈ رہے ہیں

اِن گھور اندھیروں میں جو ہو چاند سی روشن

ہم لوگ اَزل سے وہ جبیں ڈھونڈ رہے ہیں

بے مُول سی یادوں کے خزانے لئے دل میں

مسمار مکانوں کو مکیں ڈھونڈ رہے ہیں

دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے

 دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے

غم سی آگ کو ہم نے بادل کر رکھا ہے

جس نے راہ کے پیڑوں کی سب شاخیں کاٹیں

سب نے اسی کے سر پر آنچل کر رکھا ہے

کوئی پہاڑ ہے اپنی ذات کے اندر جس نے

خود ہم سے بھی ہم کو اوجھل کر رکھا ہے

خدا سے دل ہے بس اتنا دعا گزار مرا

خُدا سے دل ہے بس اتنا دُعا گُزار مِرا

تمہارے چاہنے والوں میں ہو شمار مرا

کھڑے تھے روک کے غم راستہ ہزار مرا

تِری نظر نے نہ گرنے دیا وقار مرا

رہے گا یوں ہی ہمیشہ نہ دل فگار مرا

خدا نے چاہا تو بدلے گا حالِ زار مرا