تیری آواز کے تعاقب میں
میں مسلسل سفر میں رہتا ہوں
گھپ اندھیری ہے زندگی میری
روشنی کا کوئی اشارہ نہیں
رہنمائی کو اب ستارہ نہیں
منزلوں کی تلاش، لاحاصل
اک سفر ہے کہ جو مسلسل ہے
تیری آواز کے تعاقب میں
وقت کا زاویہ بدلنے سے
تیری آواز کے تعاقب میں
کتنی دشواریوں سے گزارا میں
ہاں مگر حوصلہ بلندی کا
میرے اندر قیام کرتا رہا
تو مسلسل کلام کرتا رہا
بے خیالی کے پانیوں سے پرے
وحشتوں کے عظیم صحرا میں
میری نظریں بھٹکتی رہتی ہیں
تیری آواز کے تعاقب میں
آسماں کی طرف میں کیوں جاؤں
جانتا ہوں کہ بس اندھیرا ہے
اک خلا ہے جہاں تری آواز
مشکلوں کو بھی دستیاب نہیں
بے سکونی ہی بے سکونی ہے
میں زمیں زاد اپنے کمرے کے
بام و در میں سکون ڈھونڈوں گا
تیری آواز کے تعاقب میں
زندگی کیا ہے اک ٹریفک جام
سب کے سب مرحلے رکے سے ہیں
نجم آسودگی کے سگنل پر
ناامیدی کے بے تحاشا فقیر
کاسۂ کرب لے کے بیٹھے ہیں
اور میں منتظر ہوں جب سگنل
پھر ہرا ہو، اگرچہ مشکل ہے
میں کہ پھر سے سفر میں کھو جاؤں
تیری آواز کے تعاقب میں
نجم الحسن کاظمی
No comments:
Post a Comment