سازش
جب سازش حادثہ کہلائے
اور سازش کرنے والوں کو گدی پر بٹھایا جانے لگے
جمہور کا ہر ایک نقش قدم
ٹھوکر سے مٹایا جانے لگے
جب خون سے لت پت ہاتھوں میں
اس دیش کا پرچم آ جائے
اور آگ لگانے والوں کو
پھولوں سے نوازا جانے لگے
جب کمزوروں کے جسموں پر
نفرت کی سیاست رقص کرے
جب عزت لوٹنے والوں پر
خود راج سنگھاسن فخر کرے
جب جیل میں بیٹھے قاتل کو
ہر ایک سہولت حاصل ہو
اور ہر با عزت شہری کو
صولی پہ چڑھایا جانے لگے
جب نفرت بھیڑ کے بھیس میں ہو
اور بھیڑ ہر ایک چوراہے پر
قانون کو اپنے ہاتھ میں لے
جب منصف سہمے سہمے ہوں
اور مانگیں بھیک حفاظت کی
ایوان سیاست میں پیہم
جب دھرم کے نعرے اٹھنے لگیں
جب مندر، مسجد اور گرجا میں
ہر ایک پہچان سمٹ جائے
جاں لوٹنے والے چین سے ہوں
اور بستی بستی بھوک اگے
جب کام تو ڈھونڈیں ہاتھ مگر
کچھ ہاتھ نہ آئے ہاتھوں کے
اور خالی خالی ہاتھوں کو
شمشیر تھمائی جانے لگے
تب سمجھو ہر ایک گھٹنا کا
آپس میں گہرا رشتہ ہے
یہ دھرم کے نام پہ سازش ہے
اور سازش بے حد گہری ہے
تب سمجھو مذہب و دھرم نہیں
تہذیب لگی ہے داؤ پر
رنگوں سے بھرے اس گلشن کی
تقدیر لگی ہے داؤ پر
اٹھو کہ حفاظت واجب ہے
تہذیب کے ہر مے خانے کی
اٹھو کہ حفاظت لازم ہے
ہر جام کی ہر پیمانے کی
گوہر رضا
No comments:
Post a Comment