برستی کم ہے، پہ برسات تو کمال کی ہے
وقار ہے یا خرافات، تو کمال کی ہے
کسی میں کچھ بھی نہیں ہے ارے! ترے جیسا
جدا سبھی سے حسیں بات، تو کمال کی ہے
ادھار تیرے لبوں سے شہد مٹھاس کا لے
اسے بھی علم ہے سوغات تو کمال کی ہے
بتا رہا ہوں زمانے کو آج میں کھل کر
محبتوں کی کرامات تو کمال کی ہے
قیامت ایک ہے، محشر بھی ایک ہے لیکن
اے برقِ لاکھ قیامات، تو کمال کی ہے
جدائی میں بھی تو مجھ کو حسین لگتی ہے
کہوں، جو کر لوں ملاقات: تو کمال کی ہے
تڑپ رہا ہے جو اسعد، سکون پا جائے
بساطِ مرض پہ شہہ مات تو کمال کی ہے
اسعد لاہوری
No comments:
Post a Comment