Wednesday 27 March 2024

نظر نشانے پہ تھی تیر بھی کمان میں تھا

 نظر نشانے پہ تھی تیر بھی کمان میں تھا

ہوا چلے گی اچانک، کہاں گمان میں تھا

مجھے بھی کرنا وہی تھا ، جو کر دیا اس نے

پہ ایک خوفِ خدا تھا جو درمیان میں تھا

زمیں کا بویا بھی کیا آسماں پہ کٹنا تھا

کیے دھرے کا نتیجہ اسی جہان میں تھا

ہزار رنگ تھے جو دشت میں بھٹکتے تھے

اور ایک لمس بڑی دیر سے مچان میں تھا

میں ایک عمر فلک پر نظر جمائے رہا

پلٹ کے دیکھا، تو وہ میرے ہی مکان میں تھا

سو خاندان کی ساری دعائیں میری تھیں

دعاؤں کے لیے بس میں ہی خاندان میں تھا

ہماری عمر تھی صابر دھواں اڑانے کی

خبر نہیں تھی کہ حاصل تو خاکدان میں تھا


صابر چودھری

No comments:

Post a Comment