قصہ ایک دیوار کا
دوزخ کے باسیوں نے وہ دیوار توڑ دی
جو ان کے اور بہشت کے مابین تھی کھڑی
شعلے شجر سے لِپٹے، شرر بار ہو گئے
نازک مزاج جنتی بیمار ہو گئے
جُھلسے جو ان کے چہرے تو دیکھا اِدھر اُدھر
کوئی مطب نہیں تھا میسٗر، نہ ڈاکٹر
کرنا تھا پیش کیس کو، ڈھونڈا بہت مگر
اک آدھ بھی وکیل نہ آیا کوئی نظر
محوِ تلاش تھے کوئی انجینئر مِلے
دیوار جو گِری ہے وہ تعمیر ہو سکے
بعد از تلاش ایک ہی انجینئر مِلا
پُوچھا کہ تُو بہشت میں کس طرح آ گیا؟
کہنے لگا کہ ہو گیا ازخُود ہی بندوبست
دیوار جونہی ٹُوٹی تو میں نے لگائی جست
دیوار تو بنا دوں میں پہلے سے خوب تر
اس کام کا بتائیں کمیشن ہے کس قدر؟
شجاعت علی راہی
No comments:
Post a Comment