Thursday 14 March 2024

آج گھبرا کے پھر وحشتِ ذات سے

آج گھبرا کے پھر وحشتِ ذات سے

روشنی مانگ لی ہے سیہ رات سے

پارہ پارہ ہوئی خامشی حال کی

شور اٹھا وہ یادوں کی بارات سے

بے ہنر اہلِ زر نامور ہو گئے

وہ جو واقف نہیں تھے کمالات سے

کیسے موسم کی لائی خبر یہ ہوا

اڑ گئے سب پرندے ہی باغات سے

ہیں خیالات میرے بہت خوش نما

مختلف ہیں مگر میرے حالات سے

وہ بلا کا سخن فہم ہوتے ہوئے

کتنا غافل رہا میری ہر بات سے

دھوپ کا ذکر اس میں سمائے کہاں

جو کہانی ہے منسوب برسات سے


سید الطاف بخاری 

No comments:

Post a Comment