کھل کے آ جائے گی ہر بات، ذرا صبر کرو
وقت ہے کاشفِ حالات، ذرا صبر کرو
صبح نکلے گی تو ہو جائے گی ظاہر ہر شے
چند گھڑیوں کی ہے یہ رات، ذرا صبر کرو
سامنے کون ہے اور کون پسِ پردہ ہے؟
چھپ سکے گی نہ کوئی بات، ذرا صبر کرو
کاغذی پھول بہت جلد بکھر جائیں گے
محوِ گردش ہیں یہ دن رات، ذرا صبر کرو
کون میدان میں ٹھہرے گا دمِ آخر تک
کس قدر کس کی ہے اوقات، ذرا صبر کرو
پھر بہار آئے گی گلشن میں پلٹ کر اک دن
رنگ لائے گی مناجات، ذرا صبر کرو
ہم غریبوں کی دعائیں بھی سنی جائیں گی
ہے خدا قاضئ حاجات، ذرا صبر کرو
مجھ کو کچھ اور سنورنے کی ضرورت ہے ابھی
ولولہ ہائے ملاقات، ذرا صبر کرو
اتنی جلدی نہ کرو اخذ نتائج میں جناب
اور بدلیں گے یہ حالات، ذرا صبر کرو
آخری فیصلہ دلدار ابھی باقی ہے
ہے اٹل روزِ مکافات، ذرا صبر کرو
دلدار احمد علوی
No comments:
Post a Comment