اور کیا تجھ سے ترے خاک بہ سر مانگتے ہیں
صرف لے دے کے یہ توفیقِ ہنر مانگتے ہیں
اے کہ صحراؤں میں خورشیدِ تمازت کے خدا
ابر پارے نہیں بس ایک شجر مانگتے ہیں
ہجرتیں فرضِ کفایہ نہیں رہنی اب کے
سو اپاہج بھی یہاں اذنِ سفر مانگتے ہیں
اس سے کم پر نہیں آمادہ نظر آتے مجھے
ظلِ سبحان! یہ لوگ آپ کا سر مانگتے ہیں
ہم سے لاشوں کی تجارت نہیں دیکھی جاتی
ہم فرشتے نہیں، تجدیدِ بشر مانگتے ہیں
کاش ہوتا کوئی بارش کی نویدوں والا
سب جھلستے ہوئے پیڑوں سے ثمر مانگتے ہیں
غلام محی الدین
No comments:
Post a Comment