Friday 15 March 2024

اور کیا تجھ سے ترے خاک بہ سر مانگتے ہیں

 اور کیا تجھ سے ترے خاک بہ سر مانگتے ہیں

صرف لے دے کے یہ توفیقِ ہنر مانگتے ہیں

اے کہ صحراؤں میں خورشیدِ تمازت کے خدا

ابر پارے نہیں بس ایک شجر مانگتے ہیں

ہجرتیں فرضِ کفایہ نہیں رہنی اب کے

سو اپاہج بھی یہاں اذنِ سفر مانگتے ہیں

اس سے کم پر نہیں آمادہ نظر آتے مجھے

ظلِ سبحان! یہ لوگ آپ کا سر مانگتے ہیں

ہم سے لاشوں کی تجارت نہیں دیکھی جاتی

ہم فرشتے نہیں، تجدیدِ بشر مانگتے ہیں

کاش ہوتا کوئی بارش کی نویدوں والا

سب جھلستے ہوئے پیڑوں سے ثمر مانگتے ہیں


غلام محی الدین

No comments:

Post a Comment