Saturday, 23 March 2024

ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے

 کفن چور


کچھ نہیں گھر میں مِرے کچھ بھی نہیں

کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا

لقمۂ نانِ جوِیں، خون کو دھکا دیتا

من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر

کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں

رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا

جسم کے بند مساموں میں اترتی ٹھنڈک

سنگِ مر مر سی ہوئیں خون ترستی پوریں

ہاتھ لرزاں تھے، امیدوں نے مگر تھام لیے

پاؤں چلتے ہی رہے شہرِ خموشاں کی طرف

پردۂ خاک میں لپٹے ہوئے بے جان وجود 

باعثِ ننگِ زمیں ہوں، مگر اک بات بتا

جسم مٹی ہو تو کپڑوں کی ضرورت کیا ہے؟

دیکھ پیوندِ زمیں! میرے تنِ عریاں پر

داغِ افلاس کا پیوند اجازت دے دے

مر کے، مرتے ہوئے انسان کو زندہ کر دے

ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے

ورنہ بھوکی ہے بہت خاک، کہاں دیکھے گی

جسم کھا جائے گی، پوشاک کہاں دیکھے گی


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment