جو پیاس پھیلی سرِ جسم و جاں سکون کی ہے
ہوائے شہر وگرنہ کہاں سکون کی ہے
میں اک بھنور میں پھنسا ہوں تو کیا ہوا یارو
بس ایک موج سی مجھ میں نہاں سکون کی ہے
بہار لاکھ لبھاتی رہے تِرے دل کو
مجھے خبر ہے کہ اب یہ خزاں سکون کی ہے
کرخت لہجے میں ہر کوئی بات کرتا ہے
مگر فقیر کے منہ میں زباں سکون کی ہے
گھسٹ گھسٹ کے چلیں اور تھوڑی دیر احمد
یہیں کہیں کوئی شاید دکاں سکون کی ہے
احمد حجازی
No comments:
Post a Comment