Wednesday 27 March 2024

میری دھرتی کے گل بوٹے ترستے ہیں بہاروں کو

 میری دھرتی کے گُل بُوٹے ترستے ہیں بہاروں کو

پرندے ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں جنت میں نظاروں کو

گِری ہیں بجلیاں ایسی، بھسم ہی ہو چلا گُلشن

جوانو! جاگ جاؤ تم، بُجھا دو ان شراروں کو

شجر ہیں بے ثمر اس کے نہیں کِھلتے یہ غُنچے بھی

بچاؤ ان بگولوں سے وطن کے لالہ زاروں کو

پراگندہ کِیا کِس نے میرے گُلشن کی عظمت کو

مِٹا دو ان لکِیروں کو، گِرا دو ان دِیواروں کو

بڑی مُشکل سے جیتے ہیں جہاں میں اب جہاں والے

ہٹا دو منصبِ عزت سے ان سرمایہ داروں کو

بھروسہ جن پہ ہے تم کو وہی چرکے لگاتے ہیں

تلاشِ حق کے متوالو! گِرا دو ان سہاروں کو

نشاں کامِل ترقی کا مِلے گا آج بھی تم کو

تدبّر سے پڑھو جو تم کبھی قرآں کے پاروں کو

نظر آتے ہیں صابر آج بربادی کے نقشے ہی

نظامِ ظُلم کو بدلو،۔ اُٹھاؤ سوگواروں کو


فاروق صابر

No comments:

Post a Comment