Friday, 15 March 2024

صحن میں پھیلی ہے تلخ تر رات کی رانی کی مہک

 معنی کی تلاش میں مرتے لفظ


صحن میں پھیلی ہے

تلخ تر رات کی رانی کی مہک

کمرۂ حیرت میں

خواب کی شہزادی

بال بکھرائے مرے سینے پر

کب سے اک خواب ابد میں گم ہے

لمس کی آنکھوں میں

قوس در قوس طلسمات عجب زندہ ہیں

جھڑ چکا ہے لیکن

جسم کی شاخ سے چہرے کا پھول

زیست کے جوہڑ میں

خواہش دریا کے

ایک امر لمحے کو

سوچنے کی یہ سزا کچھ کم ہے

کہ جلی حرفوں میں

لکھ چکا ہے کوئی

تیرہ و تار ازل کے کسی پس منظر میں

جشن نو روز پہ معمول کی اک موت

ہماری خاطر


سعید احمد

No comments:

Post a Comment