معنی کی تلاش میں مرتے لفظ
صحن میں پھیلی ہے
تلخ تر رات کی رانی کی مہک
کمرۂ حیرت میں
خواب کی شہزادی
بال بکھرائے مرے سینے پر
کب سے اک خواب ابد میں گم ہے
لمس کی آنکھوں میں
قوس در قوس طلسمات عجب زندہ ہیں
جھڑ چکا ہے لیکن
جسم کی شاخ سے چہرے کا پھول
زیست کے جوہڑ میں
خواہش دریا کے
ایک امر لمحے کو
سوچنے کی یہ سزا کچھ کم ہے
کہ جلی حرفوں میں
لکھ چکا ہے کوئی
تیرہ و تار ازل کے کسی پس منظر میں
جشن نو روز پہ معمول کی اک موت
ہماری خاطر
سعید احمد
No comments:
Post a Comment