Monday 25 March 2024

گلوبل وارمنگ نسل آدم کہاں سو رہی ہے

 گلوبل وارمنگ (Global Warming)


گلی میں جو نکلا

تو گالوں پہ گرمی کے تھپڑ پڑے

چونک کر میں نے دیکھا

حرارت بھرے فاصلے پر بگولہ کھڑا تھا

وہ تھا باد زادہ

مگر گرد کے ایک چکر میں تھا

خود تو گھوما ہوا تھا

مجھے بھی گھمانے لگا

جب میں چکرا کے گرنے کو تھا

تب ہوا تلملاتی ہوئی آئی 

اس نے تپش کے تناؤ سے چابک بھرا

پشت پر اتنی طاقت سے مارا

کہ گھاؤ مِرے تن بدن میں دہکنے لگے

٭٭٭٭٭

ہر اک گھر سے اُٹھتا ہوا گرم مرغولہ

ایسی شکایت بھری آنکھ سے دیکھتا تھا

مجھے شرمساری پسینہ پسینہ کیے جاتی تھی

بھاگنے والے لوہے سے اتنی تپش اُڑ رہی تھی

ہوا بھاپ پر ڈولتی تھی

اسی آن غصہ بھری بادِ صرصر نے

اوپر اُٹھایا، دِکھایا مجھے

اس زمیں کا وہ منظر

کہ آنکھیں جسے دیکھ کر جل رہی ہیں

حرارت کی لِپٹیں

سیاست کی گرمی

عقیدوں کی آتش

رویوں کی بھٹی سے بل کھا کے ہر پل نکلتی ہوئی

دل جلاتی بھڑک

لُو کے اُڑتے بھبھوکے 

دہن سے اُمڈتے بدن سوز شعلے

تصادم کی توپوں کے اُگلے ہوئے گرم گولے

سُلگتی ہوا کے تھپیڑے

درختوں کی سہمی ہوئی ننھی مُنی سی ٹھنڈک

فقط اپنے سائے میں سِمٹی ہوئی

٭٭٭٭٭

دیکھ سکتا ہوں میں 

شاہراہوں پہ بہتا حرارت کا لاوا

خیاباں خیاباں رواں آتشیں ندیاں

چمنیوں سے اُبلتا دُھواں

دُھت سوئی ہوئی نسلِ آدم نِگلنے کو بے تاب ہے

نسلِ آدم کہاں سو رہی ہے؟


شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment