Wednesday, 27 March 2024

جان جاناں نہ رہا جان پہ بن آئی ہے

 جانِ جاناں نہ رہا، جان پہ بن آئی ہے

زندگی پیار کی ہم کو نہ ذرا بھائی ہے

خوفِ دوزخ سے نہ جنّت کی طلب میں سجدہ

میری بے لوث عبادت تِری شیدائی ہے

ٹُوٹ کر رہ گئی ہر شاخِ شجر آندھی میں

اب چمن میں یہ صبا کس کے لیے آئی ہے؟

مُنتشر ہونے پہ اعداء کا تسلّط ہو گا

کیوں نہ یہ بات مِری قوم سمجھ پائی ہے

اُف یہ مجبور محبت کا پشیماں ہونا

’اب تیرا دوُر سے دیدار بھی رسوائی ہے‘

قابلِ ناز ہے یہ میرا مقدّر قیصر

دولتِ غم مرے ورثہ میں چلی آئی ہے


عبدالصمد قیصر

No comments:

Post a Comment