ابنِ آدم
میں نے مہکائے ہیں شعلے، میں نے دہکائے ہیں پھول
میں نے کاٹے ہیں صنوبر، میں نے چُومے ہیں ببول
میں نے ڈھالے ہیں عزائم، میں نے توڑے ہیں اصول
ولولے میرے پیمبر، ہمہمے میرے رسول
کون کہتا ہے کہ میں فانی ہوں مشتِ خاک ہوں
میں زمیں کا فخر ہوں، میں نازشِ افلاک ہوں
میری وحشت اک طرف خارِ مغیلاں اک طرف
میرے بازو اک طرف، کوہ و بیاباں اک طرف
میری ہیبت ایک جانب، میرے طوفاں اک طرف
دم بخود، حیرت زدہ، ابلیس و یزداں اک طرف
خیر و شر سے کھیلتی ہے میری فکر لا زوال
غیر فانی میری عظمت، جاوداں میرا جلال
سنگ ریزوں کو بنایا میں نے خورشید وقمر
میں نے راتوں کی چٹانیں کاٹ کے ڈھالی سحر
بحرِ شبنم سے نکالے میں نے تابندہ گوہر
میں نے کلیوں کو پلایا خونِ دل , خونِ جگر
میرے کَس بَل کے سہارے زندگی پیدا ہوئی
عالمِ امکاں میں اک ہستی نئی پیدا ہوئی
نور بجنوری
No comments:
Post a Comment