Thursday 28 March 2024

یہ کیا کہ زخم بھر گیا

 یہ کیا کہ زخم بھر گیا

رقیبِ جاں کدھر گیا

قدم یہ کون دھر گیا

چمن چمن نکھر گیا

سنا ہے قیس دشت میں

تڑپ تڑپ کے مر گیا

یہ کون دل کے طاق پر

چراغِ عشق دھر گیا

یہ طے ہے رزم گاہ میں

جو ڈر گیا وہ مر گیا

عزیز! عہدِ بانکپن

گزر گیا، گزر گیا


اے عزیز

عبدالعزیز

No comments:

Post a Comment