دو انگلیوں سے نشاں جیت کا بناتے ہوئے
چلے ہیں سُوئے قفس چور مسکراتے ہوئے
میں عادلوں کی عدالت سے خوب واقف ہوں
یہ مجرِمین رِہا ہوں گے دندناتے ہوئے
وہ خود کو کرتے ہیں ظاہر شہید ابنِ شہید
جو پکڑے جائیں سرے کا محل چھپاتے ہوئے
بجز شریفوں کے ہوتے ہیں کیا پسر پیدا
جنم سے پہلے کروڑوں کا دھن کماتے ہوئے
بقول مولا علی حاکموں کو یوں پرکھو
وہ کیا تھے آتے ہوئے اور کیا ہیں جاتے ہوئے
جو حکمراں ہو، رعایا کا باپ ہوتا ہے
یہ سوچ لیتے رعیت پہ ظلم ڈھاتے ہوئے
سگِ رذیل وطن پر ہمارے بھونکتا ہے
دیارِ غیر میں راتِب عدو کا کھاتے ہوئے
وہ دیکھ دست و گریبان بھائی سے بھائی
وہ دیکھ آگ عقائد کی گھر جلاتے ہوئے
زبان و مسلک و مذہب کے نام پر واصف
وہ دیکھ اپنوں کو اپنوں کا خوں بہاتے ہوئے
جبار واصف
No comments:
Post a Comment