Sunday 31 March 2024

راستے سے گئے ہٹائے ہم

 راستے سے گئے ہٹائے ہم

پھر بھی منزل کے پاس آئے ہم

تھے حقیقت نظر نہ آئے ہم

جب ہوئے خواب جگمگائے ہم

گو چلے تھے، پہنچ نہ پائے ہم

ہم وہیں ہیں جہاں سے آئے ہم

اپنا بادل تلاشنے کے لیے

عمر بھر دھوپ میں نہائے ہم

منزلیں ان کی ہر سفر ان کا

راستے تھے بنے بنائے ہم

تیری گلیوں کو گھر کیا جب سے

زندگی کے قریب آئے ہم

ساتھ لے کر مکان کیا چلتے

گھر کو پھر گھر ہی چھوڑ آئے ہم

تجھ پہ غصہ تھے اس لیے جاناں

بے سبب خود پہ تمتمائے ہم

جب سے ہم بن گئے تری آنکھیں

دیکھ لے روز ڈبڈبائے ہم

درد کی آنچ غم کی بھٹی تھی

پھر سراپا گئے پکائے ہم


نونیت شرما

No comments:

Post a Comment