اس کو کرنا تھی بے وفائی کی
ہم نے کیوں زور آزمائی کی
اس نے بس یوں ہی یاد کر ڈالا
ہم نے بھی رسم کی ادائی کی
لیں محبت کی ڈگریاں ہم نے
اس نے قانون کی پڑھائی کی
سارے الزام اپنے سر بر حق
ہم کو مہلت کہاں صفائی کی
خطِ تقدیر پڑھ سکا ہے کون؟
یہ کرامت ہے روشنائی کی
بے کسی، بے حِسی و تنہائی
کچھ سزائیں ہیں آشنائی کی
ہم بھی سُولی ہی چڑھ گئے آخر
بات آئی تھی پارسائی کی
اس کا تذلیل ہی مقدر ہے
جس کی عادت ہے خودنمائی کی
پھول کو سب پسند کرتے ہیں
ہم نے چاہا تو کیا بُرائی کی
گھر ہوا نے نہیں جلا مگر
آگ کی اس نے رہنمائی کی
غم کی صورت بدل گئی آخر
درد سے جب سے آشنائی کی
واجد قریشی
No comments:
Post a Comment