زمانہ کرتا ہے لیکن یہ ہم نہیں کرتے
خدا کے بندوں پہ ہرگز ستم نہیں کرتے
ذخیرہ ختم ہوا ہے ہمارے اشکوں کا
ہم اس لیے بھی ان آنکھوں کو نم نہیں کرتے
ہماری عمر میں خوشیوں سے غم زیادہ ہیں
خوشی کو غم سے کبھی محترم نہیں کرتے
خدا کے چاہنے والے ذرا بتا مجھ کو
خدا کے چاہنے والے کرم نہیں کرتے؟
ہمارے ہاتھ میں ہے ہی نہیں لکیرِ وصال
سو یہ فقیر بھی اب ہم پہ دم نہیں کرتے
یقین کیسے کروں تیری بے وفائی کا
کہ بے وفائی تو اہلِ عَلم نہیں کرتے
یہ تیرا حق ہے کہ تجھ پر مبالغہ کیا جائے
سو رتبہ حد سے بڑھاتے ہیں، کم نہیں کرتے
بھرا ہوا ہے ہمارا وجود وحشت سے
بس اس لیے تجھے ہم خود میں ضم نہیں کرتے
تہذیب حسین
No comments:
Post a Comment