Sunday 24 March 2024

زمانہ کرتا ہے لیکن یہ ہم نہیں کرتے

 زمانہ کرتا ہے لیکن یہ ہم نہیں کرتے

خدا کے بندوں پہ ہرگز ستم نہیں کرتے

ذخیرہ ختم ہوا ہے ہمارے اشکوں کا

ہم اس لیے بھی ان آنکھوں کو نم نہیں کرتے

ہماری عمر میں خوشیوں سے غم زیادہ ہیں

خوشی کو غم سے کبھی محترم نہیں کرتے

خدا کے چاہنے والے ذرا بتا مجھ کو

خدا کے چاہنے والے کرم نہیں کرتے؟

ہمارے ہاتھ میں ہے ہی نہیں لکیرِ وصال

سو یہ فقیر بھی اب ہم پہ دم نہیں کرتے

یقین کیسے کروں تیری بے وفائی کا

کہ بے وفائی تو اہلِ عَلم نہیں کرتے

یہ تیرا حق ہے کہ تجھ پر مبالغہ کیا جائے

سو رتبہ حد سے بڑھاتے ہیں، کم نہیں کرتے

بھرا ہوا ہے ہمارا وجود وحشت سے

بس اس لیے تجھے ہم خود میں ضم نہیں کرتے


تہذیب حسین

No comments:

Post a Comment