اپنے پندار انا میں ایسا دیوانہ ہوا
چاندنی راتوں میں وہ دیکھا گیا روتا ہوا
اس کا ہر اک فعل تھا سوچا ہوا، سمجھا ہوا
دشتِ جاں میں میرے اک آہو تھا وہ بھٹکا ہوا
بے وفا اب بھی ہے ذہن پرچھایا ہوا
لوگ کہتے ہیں کہ سارے شہر میں رُسوا ہوا
رُوٹھ کر وہ رُوح کی پہنائیوں میں کھو گیا
نام اس کا ہی مِرے سینے پہ ہے لکھا ہوا
لہلہاتی شاخ، غم کی دُھوپ میں سایہ مِرا
سُنتے ہیں وہ ان دنوں اک پیڑ ہے سُوکھا ہوا
اس کی باتیں کیا تھیں، ان کو میر کے نشتر کہو
لوحِ دل پر اُس کا اک اک حرف ہے لکھا ہوا
چوم لُوں میں اُس کے ہونٹوں کو سلومی کی طرح
اُس نے پڑپایا بہت تھا، مر گیا، اچھا ہوا
پُھول سے بچے مِرے، میرا اثاثہ تو بنے
وہ محبت کا مِری محفوظ سرمایہ ہوا
رفعت القاسمی
No comments:
Post a Comment