Wednesday 27 March 2024

صحرا کو دیکھتا ہوں کبھی اپنے گھر کو میں

 صحرا کو دیکھتا ہوں کبھی اپنے گھر کو میں

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ جاؤں کدھر کو میں

بدلے دل و نگاہ تو ہر شے بدل گئی

حیرت سے دیکھتا ہوں ترے بام و در کو میں

غیروں کا جام بھرتے ہو آنکھیں بچا کے کیوں

پہچانتا ہوں خوب تمہاری نظر کو میں

اب کیسا غم کہ ہو چکا ادراک زندگی

مدت ہوئی کہ بھول گیا چارہ گر کو میں

یوں لغزش قدم کے بہانے ہزار تھے

الزام دے رہا ہوں خود اپنی نظر کو میں

پہچانتا نہیں ہوں نقوش قدم ابھی

ہر روز دیکھتا ہوں تری رہ گزر کو میں

احمد خزاں کے دور میں کھلتا ہے گل کہیں

لاؤں کہاں سے ڈھونڈ کر اہل نظر کو میں


الطاف احمد اعظمی

No comments:

Post a Comment