یہ اندھیروں کے مجاور ہیں یہ ظلمات فروش
یہ یزیدوں کے مقلد ہیں غلامی کے سفیر
یہ سوا لاکھ شہیدوں کے لہو کے تاجر
مرے کشمیر کے غدار ذلالت کے امام
یہ زمانوں سے منافق یہ جہالت کے امین
یہ جو راندہ گردوں ہیں یہی ننگ زمین
ان سے ابلیس بھی چلتا ہے گریزاں ہو کر
ان پہ پھٹکار ہے اللہ کی انساں ہو کر
یہ فراعین کے ہر دور میں مداح رہے
ان کے پیچھے مرے کشمیر کی ہر آہ رہے
یہ وہ مجرم ہیں جو انصاف دلانے آئے
ایسے مکروہ کہ اب لاش کو کھانے آئے
ان کا مقصد تھا کہ قبضے کو یہاں طول ملے
ان کو تو ان کے ستم پر بھی یہاں پھول ملے
سن مری جان مرا قصۂ غم بھی سن لے
میرے چہرے پہ رقم رنج والم بھی سن لے
تجھ کو یہ ضد ہے بہت ایسوں کی تعظیم کروں
جسم تقسیم ہوا ہے تو میں تسلیم کروں
نہ مری جان میں میں ایسا نہیں کر سکتا ہوں
اپنے بچوں کو تو دھوکا نہیں دے سکتا ہوں
مجھ سے قاتل کی ستائش کی تمنا مت کر
مشورہ تیرا بجا یاروں کے شکوے بھی درست
سچ تو سچ ہے وہ کسی طور نہیں بدلے گا
میں نے نسلوں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے
آنے والوں کا میں سودا تو نہیں کر سکتا ہوں
نہ میں شامی ہوں نہ کوفی ہوں نہ درباری ہوں
میں تو للکار ہوں نوحہ ہوں عزاداری ہوں
تجھ کو معلوم بھی ہے نا کہ میں کشمیری ہوں
میں نے نسلوں کو بتانا ہے میں شبیری ہوں
اسلم رضا خواجہ
No comments:
Post a Comment