Friday, 29 March 2024

یہ اندھیروں کے مجاور ہیں یہ ظلمات فروش

 یہ اندھیروں کے مجاور ہیں یہ ظلمات فروش 

یہ یزیدوں کے مقلد ہیں غلامی کے سفیر 

یہ سوا لاکھ شہیدوں کے لہو کے تاجر 

مرے کشمیر کے غدار ذلالت کے امام 

یہ زمانوں سے منافق یہ جہالت کے امین 

یہ جو راندہ گردوں ہیں یہی ننگ زمین 

ان سے ابلیس بھی چلتا ہے  گریزاں ہو کر 

ان پہ پھٹکار ہے اللہ کی انساں ہو کر

یہ فراعین کے ہر دور میں مداح رہے 

ان کے پیچھے مرے کشمیر کی ہر آہ رہے 

یہ وہ مجرم ہیں جو انصاف دلانے آئے 

ایسے  مکروہ  کہ اب لاش کو کھانے آئے 

ان کا مقصد تھا کہ قبضے کو یہاں طول ملے 

ان کو تو ان کے ستم پر بھی یہاں پھول ملے

سن مری جان مرا قصۂ غم بھی سن لے 

میرے چہرے پہ رقم رنج والم بھی سن لے 

تجھ کو یہ  ضد ہے  بہت ایسوں کی تعظیم کروں 

جسم تقسیم ہوا ہے تو میں تسلیم کروں 

نہ مری جان میں میں ایسا نہیں کر سکتا ہوں 

اپنے بچوں کو تو دھوکا نہیں دے سکتا ہوں 

مجھ سے قاتل کی ستائش کی تمنا مت کر 

مشورہ تیرا بجا یاروں کے شکوے بھی درست 

سچ تو سچ ہے وہ کسی طور نہیں بدلے گا 

میں نے نسلوں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے 

آنے والوں کا میں سودا تو نہیں کر سکتا ہوں  

نہ میں شامی ہوں نہ کوفی ہوں  نہ درباری ہوں 

میں تو للکار ہوں نوحہ ہوں عزاداری ہوں 

تجھ کو معلوم بھی ہے نا کہ میں کشمیری ہوں 

میں نے نسلوں کو بتانا ہے میں شبیری ہوں


اسلم رضا خواجہ

No comments:

Post a Comment