شکستہ کشتی ہے لیکن اتر نہیں سکتا
میں اپنے عہد وفا سے مُکر نہیں سکتا
تُو اپنی چشمِ نوازش کو اور کھولتا جا
یہ میرا دل ہے مرے دوست بھر نہیں سکتا
کچھ اپنے ساتھ محبت، کچھ اپنے ساتھ وفا
میں چاہتا ہوں کروں، پھر بھی کر نہیں سکتا
میں اک گلی میں شب و روز آتا جاتا تھا
میں اک گلی سے مگر اب گزر نہیں سکتا
گُلاب نِیم کی شاخوں پہ اُگ نہیں سکتے
وہ اپنا سر میرے کاندھے پہ دھر نہیں سکتا
خلیل الرحمٰن حماد
No comments:
Post a Comment