دِیے کی نبض تو رُکنے لگی ہے
ہوا کے ساتھ بهی کافی ہوئی ہے
جرّی نے بزدلوں پر وار کر کے
بس اپنی تیغ کی توہین کی ہے
اندهیرا کر سکیں گے جس سے ہم لوگ
اب ایسی روشنی بهی آ گئی ہے
وہ پہلے تهی ہماری زندگی میں
اب اس سے ملتی جلتی زندگی ہے
محبت ہو تو پهر دونوں طرف ہو
کبهی اک ہاتھ سے تالی بجی ہے
کہ گمراہوں کو خُوش کرنے کی خاطر
بهٹکنے کی ہدایت کی گئی ہے
اسے چُهٹی سے پهر کیا لینا دینا
تِرے گاؤں میں جس کی نوکری ہے
شاہد نواز
No comments:
Post a Comment