Saturday 30 March 2024

لگتا تھا گھر اداس ہے بیرون گھر رہا

 لگتا تھا گھر اداس ہے بیرون گھر رہا

سردی میں اکڑا اکڑا جیسے شجر رہا

میرے خزان میں نہ ہوئی کایا پلٹ کبھی

چند پھول مسکرائے مگر بے ثمر رہا

لوگوں سے بھاگتا ہوا قندیل کا دھواں

تکتا کسی کی یاد میں جو رہگزر رہا

غم یار میں فروزاں کی ضد سے آشنا

پر اپنے اختیار سے میں بے خبر رہا

صدیوں کی قید مانگی نہ لمحوں کا اتفاق

تیرے فراق میں جبھی میں بے صبر رہا

گزرے دنوں کی یاد ہے سرمایۂ حیات

کچھ دن کسی حسین کا محوِ نظر رہا

اپنی تلاش تھی مجھے سایل ملا تو کیا

اب دو قدم پہ سامنے جیسے حشر رہا


سایل بشیر وانی

سائل بشیر وانی

No comments:

Post a Comment