لگتا تھا گھر اداس ہے بیرون گھر رہا
سردی میں اکڑا اکڑا جیسے شجر رہا
میرے خزان میں نہ ہوئی کایا پلٹ کبھی
چند پھول مسکرائے مگر بے ثمر رہا
لوگوں سے بھاگتا ہوا قندیل کا دھواں
تکتا کسی کی یاد میں جو رہگزر رہا
غم یار میں فروزاں کی ضد سے آشنا
پر اپنے اختیار سے میں بے خبر رہا
صدیوں کی قید مانگی نہ لمحوں کا اتفاق
تیرے فراق میں جبھی میں بے صبر رہا
گزرے دنوں کی یاد ہے سرمایۂ حیات
کچھ دن کسی حسین کا محوِ نظر رہا
اپنی تلاش تھی مجھے سایل ملا تو کیا
اب دو قدم پہ سامنے جیسے حشر رہا
سایل بشیر وانی
سائل بشیر وانی
No comments:
Post a Comment