چاند تجھ سے مِری باتیں کوئی کرتا ہو گا
نام لے لے کے مِرا تجھ سے بہلتا ہو گا
دیکھتا ہو گا فلک پر جو ستاروں کا ملن
دل ہی دل میں مِرے قدموں سے لپٹتا ہو گا
آتش ہجر جو تن من کو جلاتی ہو گی
اک دُھواں سا در و دیوار سے اُٹھتا ہو گا
بُھول بھی جا اسے، احباب یہ کہتے ہوں گے
اپنے کمرے میں وہ تنہا ہی سُلگتا ہو گا
دل میں ماضی کی کسک، آنکھ میں فردا کی نمی
پُرسشِ حال پہ کس طرح سنبھلتا ہو گا
کون جانے ہے مجھے اتنے حوالوں سے امر
ہر مِرا شعر غزل دل میں پرکھتا ہو گا
عرفانہ امر
No comments:
Post a Comment