چلمنِ شرم و حیا رُخ سے اُٹھا دی جائے
اب نہ جذبات کے شعلوں کو ہوا دی جائے
پیار کرنا ہے اگر جُرم تو دنیا والو
میں بھی مجرم ہوں جو جی چاہے سزادی جائے
رکھ کے مرہم کوئی مظلوم کے زخموں پہ نیا
داستاں ظُلم و تشدد کی دبا دی جائے
دوستوں کے لیے کرتے ہیں دُعا سب، لیکن
بات تو جب ہے کہ دُشمن کو دُعا دی جائے
ہر طرف دوستو! نفرت کے اندھیروں کا ہے راج
لَو محبت کے چراغوں کی بڑھا دی جائے
اپنی عادت سے نہ باز آئیں گے ہرگز یہ کبھی
بے وفاؤں کو نہ ترغیبِ وفا دی جائے
اک نئے دور کا کرنا ہے ہمیں اب آغاز
عہدِ ماضی کی ہر اک بات بُھلا دی جائے
اجنبی شہر بھی ہے رات کا سنّاٹا بھی
کس کے دروازے پہ اب جا کے صدا دی جائے
ان کی ہر بات زمانے سے جُدا ہے صادق
ان کی تمثیل کسی اور سے کیا دی جائے
خلیل صادق
No comments:
Post a Comment