Thursday, 28 March 2024

بے سبب دل کی بستی سے جب ہم چلے

 بے یقینی کے سفر پر


بے سبب دل کی بستی سے جب ہم چلے

چار موسم مزاجوں میں آباد تھے

تھوڑی گرمی تھی جذبات کے روپ میں 

ایک ٹھنڈک سی تھی ریشمی دھوپ میں 

غم رسیدہ خزاں کچھ دنوں کے لیے

اور کچھ دن بہاروں کے موسم بھی تھے

دل کی بستی میں تھی انسیت کی فضا

کتنی دلکش تھی یادوں کی بادِ صبا

بارشیں تھی، محبت کے ارمان تھے 

چار اطراف خوشیوں کے سامان تھے

بے سبب دل کی بستی سے ہم چل دئیے

جانے کس دیس کی آرزوؤں میں گم

یہ قدم اٹھ گئے اور اُٹھتے گئے

جس گھڑی دل کی بستی سے ہجرت ہوئی

موسموں کا تنوع بھی گھٹتا گیا

حلقۂ آشنائی سمٹتا گیا

ایک ہی رُت ہے اب جو بدلتی نہیں 

اور طبیعت بھی اپنی سنبھلتی نہیں 

راس آتی نہیں ہم کو آب و ہوا

کتنا سفاک موسم ہے اس دیس کا 

اوس پڑنے لگی ہے خیالا ت پر

اک دھواں سا گزرتا ہے جذبات پر

ہم کہ راہِ وفا سے بھٹکتے رہے

اور سرابوں کے پیچھے ہی چلتے رہے

خواہشِ نفس کی گمرہی کے سبب

آگئے کوہسارِ انا کی طرف

کوہسارِ انا کی بلندی پہ اب 

ہم ہیں تنہا کھڑے

خام جذبے زمستانِ احساس میں 

سرد پڑنے لگے

دل کے خانوں میں بھی 

گردشِ خوں نہیں 

اور تعلق کا مُردہ بدن

برف میں دب چکا


سلمان ثروت

No comments:

Post a Comment