بے یقینی کے سفر پر
بے سبب دل کی بستی سے جب ہم چلے
چار موسم مزاجوں میں آباد تھے
تھوڑی گرمی تھی جذبات کے روپ میں
ایک ٹھنڈک سی تھی ریشمی دھوپ میں
غم رسیدہ خزاں کچھ دنوں کے لیے
اور کچھ دن بہاروں کے موسم بھی تھے
دل کی بستی میں تھی انسیت کی فضا
کتنی دلکش تھی یادوں کی بادِ صبا
بارشیں تھی، محبت کے ارمان تھے
چار اطراف خوشیوں کے سامان تھے
بے سبب دل کی بستی سے ہم چل دئیے
جانے کس دیس کی آرزوؤں میں گم
یہ قدم اٹھ گئے اور اُٹھتے گئے
جس گھڑی دل کی بستی سے ہجرت ہوئی
موسموں کا تنوع بھی گھٹتا گیا
حلقۂ آشنائی سمٹتا گیا
ایک ہی رُت ہے اب جو بدلتی نہیں
اور طبیعت بھی اپنی سنبھلتی نہیں
راس آتی نہیں ہم کو آب و ہوا
کتنا سفاک موسم ہے اس دیس کا
اوس پڑنے لگی ہے خیالا ت پر
اک دھواں سا گزرتا ہے جذبات پر
ہم کہ راہِ وفا سے بھٹکتے رہے
اور سرابوں کے پیچھے ہی چلتے رہے
خواہشِ نفس کی گمرہی کے سبب
آگئے کوہسارِ انا کی طرف
کوہسارِ انا کی بلندی پہ اب
ہم ہیں تنہا کھڑے
خام جذبے زمستانِ احساس میں
سرد پڑنے لگے
دل کے خانوں میں بھی
گردشِ خوں نہیں
اور تعلق کا مُردہ بدن
برف میں دب چکا
سلمان ثروت
No comments:
Post a Comment