Monday 18 March 2024

تم یہ جن کو چارہ گر بنائے بیٹھے ہو

  تم یہ جن کو چارہ گر بنائے بیٹھے ہو

یہ کیا بھولے پن کا در سجائے بیٹھے ہو

محلوں کے باسی مفلسی دور کریں گے؟

باطل سے کیا اُمیدِ گھر بسائے بیٹھے ہو

جن کی عشرتوں سے اجڑا ہے چمن اپنا

ان سے آسِ بال و پر لگائے بیٹھے ہو

زلت سے نجات کی خود ہی تدبیر کرو

عدو سے کیا آس مگر لگائے بیٹھے ہو

محبتوں و محنتوں کے بیوپاریوں سے

نجات دیدہ و دل جگر لگائے بیٹھے ہو

اٹھ کے اپنے حصے کی شمع روشن کرو

اندھیرے سے کیا چکر چلائے بیٹھے ہو

زنجیروں سے تمہیں یہی اور جکڑیں گے

جن کو تم تو پارسائے نگر بنائے بیٹھے ہو

تم جو اتنا اترا کے مُسکرا رہے ہو فہیم

کون سی امتیازی فکر اپنائے بیٹھے ہو


امتیاز فہیم

No comments:

Post a Comment