کون کہتا ہے تُجھے اپنایا نہیں گیا
تمہیں میری جاں ٹُھکرایا نہیں گیا
پری چہروں پہ جو اُداسیاں نُمایاں ہیں
لگتا ہے ناز نخروں کو اُٹھایا نہیں گیا
پَروان چَڑھتا دِلوں میں عِشق کیونکر
جب اُسے خونِ جِگر پِلایا نہیں گیا
بیٹی نے سر جُھکا کے بابا کی لاج رکھ لی
اپنی خُوشی کی خاطر اُن کو رُلایا نہیں گیا
درد بھری حیات میں سب کُچھ تو ہوگیا
بس اک شخص کو مُجھ سے مِلایا نہیں گیا
ابنِ آدم پہ بھی کرے کوئی یقیں کیونکر
جبکہ آدم سے بھی وعدہ نبھایا نہیں گیا
تاثیرِ عِشق کو بیاں کرنا ہے نامُمکن
خُدا سے بھی کوئی دوسرا محبوب بنایا نہیں گیا
اُمراء تو اِس دور میں ہزاروں ہوئے مگر
غُربا کو اِس دور میں کِھلایا نہیں گیا
آ جاؤ کہ ابھی وقت پڑا ہے حیدر
بعد مرنے کے پچھتاؤ گے آیا نہیں گیا
وقاص حیدر
No comments:
Post a Comment