نہیں کچھ کام کا بیکار ہوں میں
غبار کوچہ و بازار ہوں میں
نظر سے دیکھ نہ نفرت کی مجھ کو
محبت! تیرا رشتہ دار ہوں میں
ابھی تنہائیاں ہیں پاس مِرے
ابھی محوِ تلاشِ یار ہوں میں
طلب کیوں کر رہا ہے انجمن میں
تِرے آداب سے بیزار ہوں میں
خِرد مند و کنارہ کر لو مجھ سے
سمجھ نہ پاؤ گے دشوار ہوں میں
نہ ہمدم ہوں نہ سودائی کسی کا
مگر رُسوا سر بازار ہوں میں
نہیں مجھ کو ہوس زیرو زبر کی
خود اپنا قافلہ سالار ہوں میں
دوا جس کی نہیں کوئی بھی حمزہ
عزیزو! ایسا ہی بیمار ہوں میں
حمزہ علی
No comments:
Post a Comment